خواتین حقوق کمیشن کی سربراہ کو اچانک برخاست کیوں کیا گیا؟

فوزیہ وقار کا کہنا ہے کہ انہیں سیاسی بنیادوں پر نوکری سے نکالا گیا کیونکہ 2014 میں ان کی تعیناتی اُس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کی تھی۔

فوزیہ وقار کی برطرفی کے پروانے پر کوئی وجہ تحریر نہیں تھی (بشکریہ فیس بک)

21 مئی کو پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (پی سی ایس ڈبلیو) کی چیئر پرسن فوزیہ وقار کو ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے رخصتی کا پروانہ دے کر عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ انہیں نوکری سے کیوں برخاست کیا جارہا ہے۔ بس یہی لکھا تھا کہ انہیں ایک ماہ کی تنخواہ دے کر فی الفور نوکری سے فارغ کیا جا رہا ہے۔

فوزیہ وقار کو جب نوکری سے فارغ کیا گیا تو وہ اپنی سالانہ چھٹیوں پر امریکہ گئی ہوئی تھیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی بنیادوں پر نوکری سے نکالا گیا ہے کیونکہ 2014 میں ان کی بھرتی اُس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت عرصے سے ان کے کام میں خلل ڈالا جارہا تھا۔ پنجاب اسمبلی کی بہت سی خواتین اراکین ان کی اس سیٹ پر نظر رکھے ہوئے تھیں اور انہوں نے مل کر ان کے خلاف محاذ آرائی کی ہوئی تھی۔

 فوزیہ کا کہنا تھا: ’میں چاہتی ہوں کہ پی ٹی آئی حکومت ویمن امپاورمنٹ کو فروغ دے اور سیاست کی بجائے اداروں کی مضبوطی پر زور دیا جائے۔‘

اس سارے معاملے کی جانچ پڑتال کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ارم بخاری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے بات نہ کی جس کے بعد ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری اسد رضا کاظمی اس معاملے پر بولنے کو تیار ہوئے۔

انہوں نے صرف اتنا بتایا کہ فوزیہ وقار کی نوکری کی مدت ختم ہونے والی تھی اور انہیں کمپیٹینٹ اتھارٹی نے فارغ کیا ہے۔

رات 12 بجے برطرفی کا حکم جاری ہوا

دوسری جانب جب اس حوالے سے صوبائی وزیر برائے ویمن ڈویلپمنٹ آشفہ ریاض فتیانہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’فوزیہ وقار کو نوکری سے فارغ کرنے کے احکامات وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری ہوئے اور ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس پر من وعن عمل کرتے ہوئے ان کی نوکری سے برخاستگی کا نوٹس جاری کر دیا۔ انہیں نوکری سے کیوں نکالا کیا گیا، اس بارے میں وہ کچھ نہیں جانتی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعلیٰ ہاؤس سے یہ حکم رات 12 بجے جاری کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ اسی وقت ان کو برخاستگی کا نوٹس جاری کردیا جائے مگر دفتر بند ہونے کی وجہ سے انہیں صبح تک انتظار کرنا پڑا۔‘   

آشفہ ریاض فتیانہ نے مزید بتایا کہ فوزیہ وقار کو 2014 میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس عہدے پر فائز کیا تھا، جس کی مدت تین برس تھی۔ 2018 میں فوزیہ کے اس عہدے کی توسیع کر دی گئی، جسے 2020 میں ختم ہونا تھا۔ قانون کے مطابق وہ تیسری بار اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔  

صوبائی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ چند روز قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ فوزیہ نے اپنی اس پانچ سالہ نوکری کے دوران کبھی اپنے ڈیپارٹمنٹ کا آڈٹ نہیں کروایا جبکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ تمام ڈیپارٹمنٹ آڈٹ کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا: ’اب تین خواتین کا پینل بنے گا جس کے ذریعے نئی عہدیدار کو چنا جائے گا مگر وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایات کے مطابق اس عہدے پر فائز ہونے والے کو نہ ہی تنخواہ دی جائے گی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی مراعات مہیا کی جائیں  گی۔ جو بھی اس عہدے پر فائز ہوگا اسے رضاکارانہ طور پر کام کرنا ہوگا۔‘

تاہم فوزیہ وقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں چار درخواستیں موجود ہیں جن میں انہیں کہا گیا کہ وہ آڈیٹر جنرل کو محکمہ کے آڈٹ کے لیے بھجوائیں جبکہ حالیہ بھیجی گئی درخواستوں کی کاپیاں  محترمہ صوبائی وزیر صاحبہ کو بھی بھیجی گئی تھیں۔

فوزیہ وقار کی نوکری سے برخاستگی کو سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں نے ’سیاسی انتقامی کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے خاصے غم وغصہ کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ سول سوسائٹی کی جانب سے ٹوئٹر پر فوزیہ وقار کی اپنے عہدے پر بحالی کے لیے ایک مہم کا آغاز بھی کیا گیا، جس میں #ReinstateFauziaViqar سمیت دیگر ہیش ٹیگز تخلیق کیے گئے۔ ان ہیش ٹیگز کو استعمال کرتے ہوئے اب تک ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سمیت خواتین اور انسانی حقوق کی وکیل نگہت داد اور سوشل ورکر سدرہ ہمایوں سمیت سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین و حضرات نے فوزیہ وقار کی نوکری پر بحالی اور ان کی برخاستگی کے خلاف صوبائی حکومت کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ’صوبائی حکومت فی الفور اپنا فیصلہ واپس لے اور فوزیہ وقار کو ان کے عہدے پر بحال کیا جائے۔ فوزیہ وقار خواتین کے حقوق کے لیے فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔ انہیں سیاسی بنیادوں پر نوکری سے برخاست کرنا درست نہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ادارے صحیح طریقہ سے کام کریں تو ان کے عہدیداروں کو آزادی سے کام کرنے دیں۔‘

پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن، مارچ 2014 سے فعال ہے۔ اس کمیشن کا کام خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنا، ان کی بہتری کے لیے قوانین، اصول اور پالیسیاں بنانا ہے تاکہ معاشرے سے خواتین کے ساتھ ہونے والے کسی بھی  قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کیا جاسکے۔

پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن ایکٹ 2014 کے تحت کمیشن کی چیئر پرسن کو صرف اُس صورت میں فی الفور نوکری سے برخاست کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی الزام ثابت ہو جائے، ان کا رویہ درست نہ ہو، انہیں کسی الزام میں جیل ہوجائے یا پھر حکومت کی جانب سے قائم کردہ میڈیکل بورڈ انہیں جسمانی یا دماغی طور پر نوکری نہ کرنے کے قابل قرار دے۔

تاہم فوزیہ وقار کو نوکری سے برخاست کیے جانے کا جو نوٹس جاری کیا گیا، اس میں ان میں سے کوئی بھی وجہ تحریر نہیں کی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر