ماہم گل ڈائری لکھنے کی بجائے تصویریں بناتی ہیں

اگر آپ ایک خاتون ہیں اور آپ کا تعلق پاکستان سے ہے جہاں بہت سے موضوعات پہ بات کرنے کا مطلب تہذیب کے دائرے سے خارج ہونا ہے۔ جہاں اپنے جائز حق کا دعوی کرنا بھی سو الجھنوں کو دعوت دینے کے برابر ہے، تو آپ کے اظہار کا کینوس بھی محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔

ضروری نہیں کہ وان گوف کی طرح آپ اپنا کان کاٹیں اور سامنے والے کے ہاتھ میں دے کر اپنے پریشان ہونے کا اظہار کریں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اینڈی وار ہول کی طرح ٹماٹر کے سوپ والے ٹن کی تصویر بنائیں اور آپ کو پاپ آرٹسٹ مان لیا جائے۔ مصور اپنی ذات کی اضطراری کیفیات اور ہیجان کا اظہار تصویر بنا کر بھی کر سکتے ہیں۔

اگر آپ ایک خاتون ہیں اور آپ کا تعلق پاکستان سے ہے جہاں بہت سے موضوعات پہ بات کرنے کا مطلب تہذیب کے دائرے سے خارج ہونا ہے۔ جہاں اپنے جائز حق کا دعوی کرنا بھی سو الجھنوں کو دعوت دینے کے برابر ہے، تو آپ کے اظہار کا کینوس بھی محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔

آپ لاکھ پریشان ہوں لیکن آپ کا برش بہت سی جگہ پہ آپ کا ساتھ دینے پہ آمادہ نہیں دکھائی دیتا۔ وہ کچھ چاہتا ہے، آپ کچھ چاہتی ہیں، جو درمیان کی راہ نکلتی ہے اس میں دونوں کی ہی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ وہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بس سوسائٹی کے دباؤ کی ایک تصویری جھلک ہوتی ہے۔ 

ماہم گل کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، انہوں نے اظہار ذات کے لیے کینوس کس طرح دو حصوں میں تقسیم کیا، یہ کہانی چند سطروں بعد آپ کی منتظر ہو گی۔

ماہم کو اندازہ تھا کہ اپنی حد اور اپنے وسائل میں رہتے ہوئے تصویر کیسے بنانی ہے۔ غصہ ہے تو اس کا اظہار کیسے کرنا ہے، دکھ ہے تو اسے کس طرح جگہ دینی ہے اور تھکن ہے تو وہ کیسے تصویر میں چھلکانی ہے۔

پوچھا گیا کہ زندگی میں سب سے زیادہ کون سی چیز ان پر اثر انداز ہوئی تو ان کا جواب تھا، ’والدین میں علیحدگی‘۔

بچپن جو بے فکری اور کھلنڈرے پن کا نام ہے، ماہم کے لیے وہ ایک گہری سنجیدگی اور محرومی کا وقت تھا۔ ماں باپ کا آرٹسٹ ہونا، شادی کے بعد نئی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا، یہ سب چیزیں ان کی تصویروں میں خود بہ خود جذب ہوتی چلی گئیں۔ اظہار اور برداشت کا یہ سفر سات سمندر پار کرنے کے بعد ایک انجان ملک میں بھی جاری ہے۔

پہلے زمانوں میں لوگ ڈائری لکھتے تھے، ماہم گل آج کے زمانے میں اپنی ڈائری لکھنے کی بجائے تصویریں بناتی ہیں۔ انہیں اظہار کی جو ممکنہ صورت ملی، وہ اسے اپناتی گئیں اور ایک کے بعد ایک، ماہم کی تصویریں بنتی چلی گئیں۔ 

ابا این سی اے میں پڑھاتے تھے تو ماہم کا بچپن استادوں کے درمیان ہی گزرا۔ ان کے ابا رہتے بھی وہیں تھے۔ تو جب جب ماہم ان کے پاس وہاں جاتیں، وہ عمران قریشی، آر ایم نعیم، علی ظفر اور بہت سے دیگر ہم عصر فن کاروں کو ادھر کام کرتے ہوئے دیکھتیں۔  

جہاں عام طالب علم نہیں پہنچ سکتے ماہم وہاں بھی میں موجود ہوتی تھی۔ سارا بچپن این سی اے میں گزار کر وہ پنجاب یونیورسٹی کے آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں کیوں داخل ہوئیں، اس کی وجہ شاید یہی ہو کہ این سی اے تو بالکل ان کے لیے گھر جیسا تھا۔

جب وہ پنجاب یونیورسٹی سے پڑھ کے ابا کے پاس آتی تھیں تو این سی اے میں ہی ابا نے ان کے لیے ایک چھوٹے سے سٹوڈیو کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ وہاں بیٹھ کے پریکٹس کرتی رہتیں اور ادھر ہی ڈیڑھ سال تک ستار بجانا بھی سیکھا۔

ماہم گل اپنے والد استاد بشیر احمد  (پرائیڈ آف پرفارمنس) سے جذباتی طور پہ بہت قریب تھیں اور مصوری کے معاملے میں بھی ان کے والد نے انہیں بہت توجہ دی۔تاہم  ان کا یہ خیال ضرور تھا کہ بیٹی کو زیادہ مصوری سکھانے سے شادی کے بعد اس کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور ایک فنکار کی زندگی کو وہ اتنا آسان نہیں سمجھتے تھے۔

 ماہم  انہیں دیکھ کر بھی بہت کچھ  سیکھ جایا کرتی تھیں۔ تصویریں بنانا شروع کیں تو ابا کی طرح منی ایچر ہی سے شروع کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی تصویروں میں ایک واضح باریکی نظر آنے لگی۔

بعد میں ماہم گل نے سعید اختر صاحب کی شاگردی اختیار کر لی۔ سعید صاحب ان کی والدہ کے بھی استاد تھے۔ ماہم اپنی کہانی سناتے ہوئے کہنے لگیں: ’سعید صاحب اکثر میرے سٹوڈیو میں آنے پر پینٹ کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بڑی تیز ہے اور سب کچھ بڑی تیزی سے سیکھ رہی ہے۔ وہ تعریف کبھی نہیں کرتے تھے، پہلی مرتبہ میری ایک تصویر دیکھ کر انہوں نے گیلری سے مجھے فون کیا اور میری تعریف کی تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ مہندی والے ہاتھوں کی ایک تصویر تھی اور اس کا نام میں نے 'کچ رنگ' رکھا تھا۔ میں نے کبھی کسی کام کو کاپی نہیں کیا، سعید صاحب کے بھی سبجیکٹ کاپی نہیں کیے۔ ان کا پیلٹ شاید میرے رنگوں میں چھلکتا ہو، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔‘

شاگردی ہی کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہا؛ ’میں تصویروں میں کھل کے رنگ نہیں لگاتی تھی، وہ کہتے تھے کیوں نہیں لگا رہی؟ میں کہتی تھی کہ سر ڈرتی ہوں یہ ساری تصویر کو خراب کر دیں گے۔ وہ خود آگے بڑھ کے تصویر پہ زیادہ رنگ لگا دیتے تھے۔ کہتے تھے، اب لگاؤ برش اور اسے ٹھیک کرو۔ میں ان کی بڑی شکر گزار ہوں کہ اس طرح انہوں نے میرا وہ ڈر ختم کیا جسے میں ہمیشہ اپنے اندر چھپائے پینٹ کیا کرتی تھی۔‘

ماہم گل کی ایک تصویر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک لڑکی کا چہرہ ہے اور وہ دو حصوں میں، دو ہی کینوس پر تقسیم ہے۔ اس تصویر کے بارے میں انہوں نے بتایا:

’یہ میرا تھیسس ہے، میں اس کے بارے میں بہت سوچتی تھی۔ این سی اے میں کانسپچوئل کام بہت تھا، فگریٹو کچھ نہی تھا۔ میں نے بڑا سوچنے کے بعد اپنے دل کی آواز پہ 'ڈویلٹی' پہ اپنا تھیسز کیا۔ جیسے میرے والدین الگ الگ رہے، میں پنجاب یونیورسٹی اور این سی اے کے درمیان لٹکتی رہی، منی ایچر مصوری اور آئل پینٹنگ دونوں ہی شروع سے میرا میڈیم رہے، یا ابھی جیسے میں پاکستان اور کینیڈا کے درمیان معلق ہوں، تو تھیسز بھی پھر میں نے اپنی ذات کی اسی تقسیم پر کیا۔‘

’اپنا پورٹریٹ میں نے دو کینوسز پہ بنایا۔ اس پہ باریک باریک لفظوں میں وہ سب کچھ لکھا جو ابا اور اماں کی عدالتی کارروائی کے دوران ہوا کرتا تھا۔ آپ غور سے دیکھیں تو میری آنکھیں اس تصویر میں سوال کرتی نظر آئیں گی، Why Me?، بہرحال وہ تصویر بڑی پسند آئی لوگوں کو۔ جمی انجینئیر اسے اپنے ساتھ لے گئے انہوں نے آگے آرٹ کے کسی بڑے قدردان کو وہ فروخت کی۔‘

اسی تصویر کے حوالے سے ایک اور دلچسپ واقعہ ہوا، انہی کے الفاظ میں سنیے؛

’سکول کے زمانے میں گانا بہت گایا۔ وہیں سے حوصلہ افزائی ہوئی تو ٹی وی کے ایک پروگرام میں بھی سکول کی نمائندگی کی۔ یونیورسٹی آئی تو ظفر صاحب (علی ظفر کے والد) سے ملی۔ ان کو چند لائنیں سنائیں تو انہیں آواز بہت پسند آئی۔ انہوں نے یونیورسٹی میں ایک پروگرام رکھا جس میں اس وقت کے گورنر خالد مقبول بھی آئے۔ وہ غزل انہیں بہت پسند آئی۔ اب کچھ عرصے بعد جب تھیسسز میں اس تصویر کی نمائش ہونا تھی تو میں سیدھی گورنر ہاؤس گئی  اور اسی تعلق واسطے کی بنیاد پہ ادھر اپنی نمائش کا دعوت نامہ گورنر صاحب کے لیے چھوڑ آئی۔

نمائش کے دن الحمرا کے ڈائریکٹر کا فون آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماہم گل کون ہیں؟ ان سے بات کروائیں۔ میں بھولی ہوئی تھی، نہ مجھے کوئی امید تھی۔ خیر شام کو وہاں گورنر صاحب واقعی پہنچ گئے۔ گورنر صاحب  تو آئے ہی آئے، ساتھ میں پوری پوری میڈیا کی ٹیمیں بھی لے آئے۔ تو بس اگلے دن سارے اخباروں اور چینلز میں ماہم بی بی کی خوب دھوم تھی۔

ہر بڑے آدمی کی اولاد کی طرح ماہم گل کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ اپنے والد کی شہرت کے گھنے درخت میں سے اپنا سر کیسے باہر نکالا جائے۔ مصوری سے اپنی شدید دلچسپی کا بتاتے ہوئے کہنے لگیں؛

’میں ہر وقت کلاسز میں گھسی رہتی تھی۔ پرنٹ میکنگ، مجسمہ سازی، سب کچھ سیکھا اور پوری نیت سے ہر چیز سمجھی۔ پھر بھی جب کلاس میں زیادہ نمبر ملتے تو سب یہی کہتے کہ اس کے ابا چونکہ یہاں پر ہیں اس لیے زیادہ نمبر ملتے ہیں۔

میرے استادوں نے محنت کرتے دیکھ کر ہی میری بہت مدد کی۔ ابا کی وجہ سے میری لوگوں تک رسائی تو بہت تھی لیکن اس کا فائدہ میں نے کبھی نہیں اٹھایا۔

آپ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ ایک دن غلام مصطفی صاحب نے میری پینٹنگ دیکھی تو ابا سے مانگ لی کہ اسے میں الحمرا کی سالانہ نمائش میں رکھنا چاہتا ہوں۔ ابا بہت زیادہ منع کرتے رہے کہ یہ پھر کام کرنا چھوڑ دے گی، اسے زعم ہو جائے گا کہ میں کوئی بہت بڑی چیز ہوں، ابھی اس کی تصویر نمائش کے لیے مت لے جاؤ مگر وہ لے گئے۔

بس اس کے بعد پھر ساری عمر وہی سفر چلتا رہا۔ پاکستان، مسقط، سنگا پور، دبئی، کینیڈا اور دوسرے کئی ملکوں میں نمائشیں کیں۔ تصویریں بناتی رہی اور اپنی ساری زندگی کا غصہ اسی پینٹنگ میں نکالتی رہی۔

اتنی زیادہ نمائشیں کرنے اور مسلسل تصویریں بناتے رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں ایسی بہت سی پینٹرز سے واقف تھی جو شادی کے بعد زندگی کی الجھنوں میں پھنس کر کچھ بھی نہیں کر پائیں۔ انہیں دیکھ کے مجھے بہت افسوس ہوتا تھا، بس یہی سوچ کے پھر میں نے بہت زیادہ کام کیا، محنت کی کہ جو وقت میسر ہے اس میں جتنا زیادہ ممکن ہو کام کر لوں'۔

اس کے بعد ماہم گل دو بچوں کے ساتھ کینیڈا آ گئیں۔ یہاں ایک نئے سرے سے جدوجہد شروع کی۔ بتانے لگیں؛ 'میں اپنے بچوں کو ایک محفوظ مستقبل دینا چاہتی تھی۔ میری خواہش تھی کہ انہیں کسی قسم کا عدم تحفظ کبھی نہ ہو۔ میں یہاں خالی ہاتھ آئی تھی۔ ادھر آنے کے بعد شیلٹر میں رہی، برف کے طوفان میں کئی بار پھنسی لیکن ہمت نہیں ہاری۔ بچوں کے ایک سکول میں کام شروع کر دیا۔ ایک گرافک ناول کے لیے بھی تصویریں بنائیں۔ ایک ورکشاپ بھی اسی حوالے سے کروائی۔ پھر وہ سب کچھ سی بی سی اور مختلف ٹی وی چینلز پہ چلا۔ امیگرنٹ عورتوں کے مسائل پہ کافی کام کیا۔ ان کی ہیریسمنٹ کے حوالے سے اقدامات کیے۔ آرٹ ریزیڈینسی اور گروپ شوز کیے۔ پاکستانی قونصلیٹ جنرل نے ایک شو میں شرکت کے لیے دعوت دی۔ کئی انعامات جیتتے۔ ہر پلیٹ فارم پر امیگرنٹ خواتین کے لیے لاز اور رولز بدلوانے کی بہت کوشش کی۔ آخر اس مرحلے پہ میں کچھ محسوس کرتی ہوں کہ شاید وہ جدوجہد کچھ رنگ لائی ہے لیکن خدا جانے ابھی کتنے سفر آگے باقی ہیں'۔

ماہم گل کی تصویریں ان کے ماحول اور بحیثیت عورت ان کی ذات کے حقائق کی ترجمانی کرتی ہیں۔

'اگر میں اپنی سوچ اور دل کی آواز کینوس پر نہ اتاروں تو وہ میرا آرٹ نہیں ہو گا، وہ کرافٹ کہلائے گا۔ تصویریں میرے لیے روزگار کا ذریعہ نہیں ہیں، یہ میرے اظہار کا وسیلہ ہیں'۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ