اسانج کی گرفتاری اور صحافیوں کا اصل فرض

جولین اسانج کی حتمی سزا صحافیوں کو یاددہانی کراتی ہے کہ ان کا جرم ریاست کے ان امور کو افشاں کرنا ہے جنہیں وہ چھپانا چاہتی ہیں۔

جب وکی لیکس کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹی تو ہم صحافی اس میں کُود پڑے اور تحریروں سے دیواریں بھر دیں۔ اس دوران ہم یہ بھول گئے کہ حقیقی تحقیقاتی صحافت کیا ہوتی ہے اور انکشافات کی پکی پکائی دیگ سے اپنے اپنے حصے کی بوٹیاں نوچنے لگے۔

جولین اسانج کی حتمی سزا صحافیوں کو یاددہانی کراتی ہے کہ ان کا جرم ریاست کے ان امور کو افشاں کرنا ہے جنہیں وہ چھپانا چاہتی ہیں۔

میں امریکہ کے جاسوسی قوانین سے اُکتا چکا ہوں اور ان سے متاثر ہونے والے جولین اسانج اور چیلسیا میننگ کی کہانیاں بیزاری کا باعث ہیں۔

کوئی بھی ان کی شخصیت کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتا کیوں کہ بظاہر وہ انہیں پسند نہیں کرتے ان میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جنہوں نے ان کے انکشافات کو اپنی صحافت چمکانے کے لیے استعمال کیا۔

میں آغاز سے ہی وکی لیکس کے اثرات کے بارے میں فکرمند رہتا تھا لیکن یہ پریشانی مغربی حکومتوں کی ظالمانہ کارروائیوں [خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں] کے حوالے سے انکشافات کے بارے میں نہیں تھی بلکہ حقیقی فکرمندی کا مرکزعملی صحافت تھی۔

جب وکی لیکس کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹی تو ہم صحافی اس میں کُود پڑے اور تحریروں سے دیواریں بھر دیں۔ اس دوران ہم یہ بھول گئے کہ حقیقی تحقیقاتی صحافت کیا ہوتی ہے اور انکشافات کی پکی پکائی دیگ سے اپنے اپنے حصے کی بوٹیاں نوچنے لگے۔

یہ وہ راز تھے جن کو عام کرنے کا فیصلہ جولین اسانج نے کیا تھا نہ کہ یہ صحافیوں نے اپنے ذرائع سے حاصل کیے تھے۔

ایسا کیوں ہوا، یہ وہ سوال ہے جو میں گزشتہ دس برسوں سے اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں۔ یہ سوال ہمیشہ سر اٹھاتا رہے گا کہ ہم لاشعوری طور پر عربوں یا امریکیوں کے تو بہت سے راز پڑھتے رہے لیکن ان میں اسرائیلیوں کے بارے میں اتنا کم کیوں لکھا گیا؟ وہ کون تھا جو یہ کھچڑی پکا رہا تھا جو ہم مزے سے کھاتے رہے؟ اور یہ کہ اب اس ہانڈی میں مزید کیا بچا ہوا ہے؟

لیکن گزشتہ چند دنوں میں مجھے اس بات کا پورا یقین ہو چلا ہے کہ اسانج کی قید اور میننگ کو دوبارہ جیل بھیجنے کے پیچھے حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

اور اس سب کا دھوکہ، غداری یا سیکیورٹی کو تباہ کن نقصان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

رواں ہفتے واشنگٹن پوسٹ میں وائٹ ہاؤس میں صدر کی تقریر لکھنے والے سابق اہلکار مارک تھیسین کی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے اسانج کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک صحافی نہیں بلکہ ایک جاسوس ہیں۔

مارک تھیسین جو سی آئی اے کی جانب سے تشدد کو جائز اور قانونی قرار دے چکے ہیں، ان کا کہنا تھا: ’وہ [اسانج] امریکہ کے خلاف جاسوسی میں ملوث رہے ہیں۔ اور انہیں اس نقصان پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے جو ان کی وجہ سے ملک کو پہنچا۔‘

صدر ٹرمپ کے پاگل پن کے بارے میں کیا کہا جائے جنہوں نے پہلے ہی امریکہ کے دشمنوں کے ساتھ خفیہ تعلقات کو تفریح بنایا ہوا ہے۔

نہیں، مجھے ایسا نہیں لگتا کہ امریکی جاسوسی کے قانون کا اس پر اطلاق ہوتا ہے تاہم روایتی صحافیوں یا قابل اعتماد خبر رساں اداروں  کے لئے اس کے اثرات سنگین ہو سکتے ہیں، جیسا کہ مارک تھیسین ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔

ان انکشافات کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مقامی طور پر بھرتی لیے گئے ایجنٹوں کو درپیش خطرات کے بارے میں بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ امریکی افواج کے عراقی ترجمانوں نے ہمیں بتایا کہ عراق میں جب ان کو خطرات لاحق ہوئے تو انہوں نے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے امریکی ویزوں کی درخواست کی جس پر انہیں سفارتخانے سے نکال دیا گیا۔ ہمارے برطانوی حکام نے بھی اپنے عراقی مترجمین کے ساتھ ایسا ہی برتاو کیا تھا۔

لہذا صرف ایک لمحے کے لئے بھول جائیں کہ شہریوں کی ہلاکت، امریکی افواج کے مظالم، بغداد میں امریکی افواج کی طرف سے رائٹرز کے عملے کی ہلاکت، گوانتانامو میں معصوم افراد کی قید، تشدد، رسمی جھوٹ، جعلی اموات کے اعداد و شمار، سفارت خانے کی جانب سے بولے گئے جھوٹ، مصر کو تشدد کی امریکی تربیت اور دیگر جرائم اسانج اور میننگ کی سرگرمیوں کے باعث منظر عام پر آئے۔

آئیے ایک لمحے کے لیے یہ تصور کرتے ہیں کہ اگر اسانج اور میننگ کے انکشافات برائی کی بجائے اچھائی پر مشتمل ہوتے جن میں خفیہ سفارتی اور فوجی دستاویزات کے حوالے سے امریکہ کو ایک زبردست اور شاندار اخلاقی اقدار کے حامل ملک کے طور پر پیش کیا  جاتا تو ان کے ساتھ کیا یہی سلوک کیا جاتا؟

آئیے جھوٹ موٹ کا دِکھاوا کرتے ہیں کہ عراق میں امریکی افواج نے شہریوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، انہوں نے اپنے اتحادیوں کی جانب سے کیے گئے تشدد کی مذمت کی ہے، انہوں نے ابو غریب قیدخانے میں (جہاں بہت سے معصوم اور بے گناہ افراد قید تھے) کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہیں کیا بلکہ ان سے احترام اور رحم کے ساتھ پیش آئے۔ انہوں نے نجی سیکورٹی فورسز کی طاقت کو توڑا اور انہیں زنجیروں سے باندھ کر واپس امریکہ کی جیلوں میں بھیجا۔ لیکن بدقسمتی سے حقیقت اس کے برعکس ہے وہ عراق کے جنگ کے بعد اپنے پیچھے مرد خواتین اور بچوں سے بھرے قبرستان چھوڑ کر آئے۔

چلو تصور کریں کہ ہیلی کاپٹر ریڈیو پر آواز گونجتی ہے: ’رکو، مجھے لگتا ہے کہ یہ عام شہری ہیں اور یہ بندوق صرف ایک ٹیلی ویژن کیمرہ ہوسکتا ہے، ٹہرو گولی نہ چلانا۔‘

لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، یہ صرف خود سے فرار ہے۔

حقیقت میں افشا کیے گئے یہ ہزاروں لاکھوں دستاویزات امریکہ کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں، اس کے سیاستدانوں، اس کے سپاہیوں اور اس کے سفارتکاروں کے لیے۔

میں ہمیشہ اس وقت کی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کی طرف سے جاری کردہ اس غصیلے بیان کو یاد رکھوں گا جو انہوں نے اس وقت دیا جب انہیں پتہ چلا تھا کہ ان کی طرف سے اقوام متحدہ کے افسران کی جاسوسی کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔

سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام اقوام متحدہ کے وفود کے کریڈٹ کارڈز، بینک ٹرانزیکشنز، یہاں تک کہ پرواز کرنے والے کارڈز کی تفصیلات حاصل کرتے رہے تھے لیکن اس روئے زمین پر کون لوگ اقوام متحدہ کےغیر اہم عملے کی جاسوسی میں وقت ضائع کریں گے؟ لیکن سی آئی اے کے پاس بان کی مون کے ساتھ انجیلا مرکل کی نجی ٹیلی فون بات چیت سننے کا وقت موجود تھا۔

اسانج کی جانب سے افشا کی گئی معلومات میں 1979 کے ایرانی انقلاب، شام اور لبنان میں امریکی مخالف عناصر کی نقل و حرکت، ایران عراق جنگ سمیت دیگر اہم تاریخی حوالوں سے بھی انکشافات کیے گئے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے لگائے گئے خفیہ اندازے کے مطابق عراق اور افغانستان میں ایک لاکھ نو ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں (یہ بھی کم سے کم اموات کا اندازہ ہے) جبکہ سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ان ہلاکتوں میں سے مارے جانے والے 66 ہزار سے زیادہ افراد وہ تھے جن کا جنگ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

مجھے حیرت ہو گی کہ 66 ہزار امریکی شہریوں کی ہلاکت پر امریکہ کا ردعمل کیا ہوتا۔ یہ ہلاکتیں 11/9 حملے سے 20 گنا زیادہ ہیں۔

اس مواد کا بدترین راز یہ نہیں تھا کیونکہ حادثاتی طور پر فوجی انتظامیہ نے فائل پر "خفیہ" یا ’صرف آپ کی آنکھوں کے لئے‘ تحریر کر دیا تھا  بلکہ اس کی وجہ  یہ ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر ریاستی جرائم کا احاطہ کرتا ہے۔

ان مظالم کے لئے ذمہ دار لوگوں کے خلاف مقدمات چلنے چاہیں، یہ جہاں کہیں بھی چھپے ہوئے ہوں انہیں حراست میں لیا جائے اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جائے۔

 لیکن نہیں، ہم تو یہ جرائم افشا کرنے والوں کو سزا دے رہے ہیں۔

یقینی طور پر ہم صحافی، ’قابل اعتماد خبر رساں اداروں‘ سے تعلق رکھنے والے افراد  شاید اپنے پیشے کے لئے اس کے نتائج اور مضمرات کے بارے میں فکر مند ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں اس سچ کی کھوج میں رہنا چاہیے جس سے حکومتیں پریشان رہیں۔ مثال کے طور پر اس بات کا کیوں پتہ نہ چلایا جائے کہ مائیک پومپیو نے ذاتی طور پر محمد بن سلمان کو کیا یقین دہانی کرائی؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے نتن ہاہو سے کیا وعدہ کیا؟ ایران کے ساتھ امریکہ کے کیسے خفیہ رشتے قائم ہیں یا شام کی حکومت میں شامل عناصر کے ساتھ خاموش روابط کے کیا مقاصد ہیں۔   

ہم اگلے دس برس کیوں نئے اسانج کا انتظار کریں کہ وہ کب ریاستی رازوں سے بھرا ٹرک بیچ سڑک الٹ دے؟

لیکن ہمیشہ کی طرح سرخ بتی کا انتباہ ہمارا راستہ روک لیتا ہے۔ اگر ہم روایتی انداز سے صحافت کرتے رہے اور اپنے مالکوں کے جھوٹ کی راہ پر چلتے رہے تو یہ اسانج، میننگ اور ایڈورڈ سنوڈین کے خلاف نفرت پیدا کرنے پر مجبور کر دے گا۔

ہمیں اس کے لیے الزام بھی نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ ان تینوں کو دنیا کے لیے خطرناک مثال بنا دیا گیا ہے یہ حکومتوں کی طرف سے تنبیہہ ہے کہ ان کے جنگی جرائم اور گناہوں کو دنیا کے سامنے لانے کا مطلب پوری زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارنا ہے۔

احتساب کی ندامت اور خوف کے باعث سیکورٹی حکام اور حکومتیں ایسا کرتی ہیں ورنہ خبر افشاں کرنا کوئی بڑا جرم یا قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

 

  

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ