الووں کے ذریعے علاج

انگلینڈ میں الووں کی مدد سے ذہنی اور جسمانی مریضوں کی تھراپی کا رواج پروان چڑھ رہا ہے۔

(روئٹرز)

آسمان میں اڑتی مادہ ایک الو   (نام :ویلو) نیچے کی جانب آتے ہوئے نو آموز پرندوں کے شوقین کے بازو پہ بیٹھ گئی ۔’ کیا یہ خوبصورت نہیں ہے؟‘ شوقین نے پوچھا۔

 وہ اپنے دوسرے ہاتھ میں ایک اعصا تھامے ہوئے کھڑے تھے،  کہنے لگے: الو یقینا آسمان کا ایک عجوبہ ہیں۔

کینسر سے متاثرہ زیر علاج بارہ سالہ الیگزینڈر گوڈون کے لیے ویلو  کے ساتھ  وقت  گزارنا مدد گار ثابت ہوا ہے۔ وہ گزشتہ تین سالوں میں اپنے بون کینسر کے علاج کی مختلف صورتوں کا سامنا کر چکے ہیں۔

گوڈون کہتے ہیں : ’میں ان (الووں)کے آس پاس اچھا اور محفوظ محسوس کرتا ہوں‘۔  اس دوران ویلو ان کے بازو پر بیٹھی لگاتار اپنا سر گھما رہی تھی۔ وسطی انگلینڈ کے رہائشی  گوڈون کو آٹھ سال کی عمر میں ڈاکٹروں نے  بتایا کہ وہ نامعلوم بیماری کی وجہ سے  ایک سال سے زیادہ  زندہ نہیں رہ پائیں گے، لیکن اگلے سال ڈاکٹروں کو اندازہ ہوا کہ گوڈون کو کینسر ہے۔ امریکہ میں کیمیوتھراپی، ریڈیو تھراپی اور ران کی ہڈی میں پیوند کاری کے بعد گوڈون کے مرض کی تشخیص بہتر ہو رہی ہے لیکن اس میں کینسر کے بڑھنے کے امکانات پچاس سے ستر فیصد تک زیادہ ہو چکے ہیں۔

اتنا کچھ جھیلنے کے بعد وہ پوسٹ ٹرامیٹک سٹیریس ڈس آرڈر جیسے مسائل کا شکار ہو چکے ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے وہ ایک برطانوی سماجی اور کاروباری تنظیم ہیک بیک کی مدد سے 2016 سے ’اول تھراپی‘ کا سہارا لے رہے ہیں۔

گوڈون پرندوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں اور الووں کے بارے میں بے شمار حقائق پلک جھپکتے  بتا سکتے ہیں۔ وہ ویلو سے ذاتی انس رکھتے ہیں۔ دو سالہ ویلو کی ایک ٹانگ  کتے کے حملے میں متاثر ہو چکی ہے۔

 گوڈون کہتے ہیں: ’یہ ایک شاندار پرندہ ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ایک خاص تعلق ہے۔ اسے بھی میری طرح  صحت یاب ہونا تھا۔ ‘

گوڈون پرندوں کے لیے ایک ٹھکانہ بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔ ’ہم ایک ماہ میں ویلو کو گھر لے جائیں گے جہاں اس کی رہائش کا بندوبست کیا جا چکا ہے۔‘

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہیک بیک کی بانی اور ماہر نفسیات انیتا مورس کہتی ہیں: ’الیگزینڈر گوڈون کو مستقبل پر یقین رکھنا ہو گا، وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھے جو ان کی توجہ مشکل علاج سے ہٹا سکے۔‘

اینمل تھراپی

ہیک بیک ایک سماجی تنظیم ہے ،جو برطانیہ میں اینمل تھراپی کو غیر طبی علاج کے طور پر متعارف کروا رہی ہے تاکہ علاج کے لیے فراہم کی جانے والی  قلیل رقم پر انحصار کم کیا جا سکے۔

 مورس الووں کے ساتھ ساتھ ٹاکنگ تھراپی بھی استعمال  کرتی ہیں، جس کے ذریعے انزائیٹی اور آٹزم جیسے مسائل کا توڑ کیا جاتا ہے۔

ان کے کلائنٹس پرندوں کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں، پرندوں کو اڑنے یا اترنے کی ترغیب دے سکتے ہیں، ان کو تھام اور دیکھ سکتے ہیں۔ اس دوران چیشائر فالکنری میں مورس کا مشاورتی سیشن چل رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ سکولوں میں بھی ایسے سیشن منعقد کیے جاتے ہیں۔

الووں کی چہچاہٹ اور چیخ و پکار کے بیچ مورس کہتی ہیں: ’پرندوں کی ذمہ داری لینا انسانی فلاح اور ان کے دماغ پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔‘

الو بہت حساس پرندہ ہے اور دل کی دھڑکنیں بھی سن سکتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ  وقت گزارنے والے کلائنٹس کو ان کے ساتھ مثبت برتاؤ کرنا چاہیے۔

 مورس کہتی ہیں :’پرندوں کے ساتھ یہ طریقہ علاج صرف اسی صورت کام کرے گا جب آپ دونوں کے درمیان بھروسے کا رشتہ قائم ہو گا۔ یہ نوجوانوں کو بھروسے، اعتماد اور صبر جیسے جذبات سے آگاہ کرتا ہے۔‘

جب کلائنٹس مورس کے پانچ الووں ویلو، مینگو، مرے، ایکسل اور سفید چہرے والے الو ادریس سے ملتے  ہیں تو  اپنی بڑی آنکھوں اور معصوم چہرے کی وجہ سے سب کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔

مورس کہتی ہیں: ’الو جنگلی پرندے ہیں ۔یہ سب کے لیے حیرت کا باعث ہے کیوں کہ الووں کے ساتھ جادو اور دیومالائی کہانیوں کو منسوب کیا جاتا ہے۔ اگر میں اپنے برے دن پر ایک دو گھنٹے الو اڑانے میں گزار دوں تو یقینی طور پر یہ مجھے سکون دے گا۔‘

الووں کا کاروبار

ایک لمبے عرصے سے جانوروں کو انسانی صحت کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور ماہرین کے مطابق اس کے کئی فوائد ہیں۔ یہ تنہائی ختم کرنے اور درد کی شدت میں کمی لانے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ کتوں کو ہسپتالوں اور نگہداشت کے اداروں میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن مورس  نے، جن کی شکاری پرندوں میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب وہ نفسیات میں جذبات کے استعمال پر تحقیق کر رہی تھیں،  ’اول تھراپی‘ شروع کرنے کی بات کی تو لوگوں نے انہیں پاگل سمجھا۔

مورس کے مطابق: ’لوگوں کی لاعلمی  سے فنڈز جمع کرنے میں مسائل کا سامنا رہا اور سرمایہ کار یہی سمجھتے رہے کہ میری تحقیق انسانوں کے بجائے جانوروں پر مرکوز ہے‘۔

 ’میری توجہ انسانوں پر ہے لیکن جانور ایک ذریعہ ہیں، جو میں کر رہی ہوں اس سے پہلے  کسی نے نہیں کیا، اس لیے سرمایہ کار اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘۔

بعد میں مورس نے ہیک بیک کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کو ہونے والی آمدنی کا زیادہ تر حصہ عطیات اور کمیشن سے حاصل ہوتا ہے جو وہ سکولوں اور خیراتی اداروں میں ہونے والے سیشنز سے حاصل کرتی ہیں۔

وہ الووں کے مرکزی خیال پر مشتمل بچوں کی کتابیں بھی لکھتی ہیں ، لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ زیادہ منافع بخش نہیں۔ وہ 2019 میں کم سے کم 25 ہزار پاؤنڈز منافعے کی امید کر رہی ہیں۔

سماجی تنظیموں کے حوالے سے کام کرنے والے ٹم لاگیس کہتے ہیں: ’یہ بنیادی طور پر چھوٹی، متحرک اور کمیونٹی پر توجہ مرکوز رکھنے والی تنظیمیں ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ ایسی خدمات ادا کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔‘

ایسی ہی ایک اور ملتی جلتی  تنظیم کتوں کے ذریعے ریپ متاثرین کی مدد کرتی ہے جبکہ ایک اور تنظیم معاشرتی طور پر تنہائی کے شکار نوجوانوں کی مدد گھڑسواری کے ذریعے کرتی ہے۔

لاگیس کہتے ہیں: ’سماجیو کاروباری لوگ دیکھتے ہیں کہ کون سی چیز انسانی زندگیاں بہتر بنا سکتی ہے  لہذا  وہ اینمل تھراپی جیسے تصوارت  متعارف کرواتے ہیں۔ یہ طریقے عمومی طور پر موجود علاج کے دائرے سے باہر ہیں لیکن ایسا کرنے سے نئے طریقہ کار فروغ پاتے ہیں اور جلدی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں کیونکہ ایسا کرنا بہت تخلیقی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت