چمڑے کے جوتے سے پشاوری چپل تک

پرانے وقتوں میں قوت خرید کم ہونے کے باعث اکثر لوگ میزری کے پودے یا پھر چاول اور گندم کے خشک پودوں سے چپل بناتے تھے۔

(اے ایف پی)

افغانستان اور پاکستان میں رہنے والے تمام پشتونوں میں تمدن کے لحاظ سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی لیے پشتونوں کے جوتوں کا تاریخی پس منظر بیان کرنے کے لیے ہم تمام پشتون قوم خواہ وہ افغانستان یا پاکستان میں رہتے ہیں، یا پھر کوچ کرکے ہندوستان میں بس گئے ہیں، ان سب کو مد نظر رکھیں گے۔

جب ہم جوتوں کی تاریخ پر بات کرتے ہیں تو ساتھ یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ قدیم زمانے میں صرف امیر طبقہ ہی اس ’نعمت‘ سے مالامال تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے۔ لیکن زمانہ محرومی نے بہت سے لوگوں کو اس نعمت کی قدر یوں سکھا دی تھی کہ اکثر لوگوں کے پاس جوتے ہونے کے باوجود وہ ننگے پیر چلتے تھے تاکہ جوتے خراب نہ ہو جائیں۔

اس پر سیانے لوگوں نے ایک ضرب المثل بنائی کہ ’کوخہ کو د سرو دہ خو د خپو دہ‘ یعنی ’جوتا اگر سونے کا بھی ہے لیکن ہے تو پیروں کے لیے۔‘ اس ضرب المثل کے باوجود جوتے ایک گراں قدر اثاثہ سمجھے جاتے رہے۔

زمانہ قریب میں اکثر لوگ جوتے کمرے کے اندر سامنے والے چھجوں میں رکھتے تھے تاکہ باہر سے کوئی مہمان آئے تو وہ مرعوب ہو سکیں۔ لیکن ایسا زیادہ تر پسماندہ علاقوں میں ہوتا رہا ہے۔

پشتون قوم کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں جو جوتے یہ لوگ استعمال کرتے تھے وہی نمونے دوسری قوموں میں بھی اس وقت استعمال کیے جاتے تھے۔ اس بنا پر کچھ تاریخ دان سمجھتے ہیں کہ پشتون چونکہ آریا النسل ہیں لہذا ان میں یہ تمدن آریاؤں نے متعارف کروایا۔ آریا قوم کا مرکز بیکٹریا رہا ہے اور یہی حقیقت پشتو کے ایک پرانے شعر سے بھی آشکارا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’تمدن اول د بلخہ پورتہ شوے، دنیا پوئی نہ وہ زمونگ زنی پوئی شوی‘ ’یعنی تمدن کی ابتدا بلخ سے ہوئی پشتون اس وقت تمدن سے آشنا ہوئے، جب باقی قومیں ابھی اس سے ناآشنا تھیں۔‘

پشتونوں کی پاپوش چپل کا ذکر کرتے ہوئے ہر دور میں استعمال ہونے والے جوتوں کی قسم کو ہم اسی ترتیب سے لکھیں گے۔ لہذا اس ترتیب کے مطابق سب سے پہلے ہم چمڑے کے جوتوں پر بات کریں گے کیونکہ ابتدا میں جانوروں کی کھالوں سے استعمال کی اشیا بنائی جاتی تھیں۔

چمڑے کے جوتے

قدیم زمانے میں کوھستانی علاقوں کے پٹھان (خصوصاً برفانی علاقوں کے) فراسٹ بائٹ سے بچنے کے لیے پیروں پر نرم چمڑا لپیٹتے تھے۔

 بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ تقریباً 50 سال پہلے تک بھی اس کا استعمال عام تھا۔ مقامی لوگ ایک طویل اور خود ساختہ طریقے سے چمڑے کو استعمال کے قابل بناتے تھے لیکن یہ ہر کسی کے بس کا کام نہیں تھا۔

جو لوگ چمڑے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے وہ ٹائر کے ربر سے چپلیں بناتے تھے جو نہایت سخت ہوتی تھیں۔ اکثر غریب لوگ جوتے بھی نہیں پہنتے تھے۔ تاہم پلاسٹک کے جوتے متعارف ہونے پر ربر کے جوتے پہننے کا رجحان ختم ہو گیا۔

میزری اور گھاس پھونس کی چپل

پرانے وقتوں میں قوت خرید کم ہونے کے باعث اکثر لوگ میزری کے پودے یا پھر چاول اور گندم کے خشک پودوں سے چپل بناتے تھے۔ یہ جوتے پشتون علاقوں کے علاوہ سپین، افریقہ، جاپان اور دیگر ملکوں میں تب تک عام رہے ہیں جب تک چمڑے کو مشینوں کی مدد سے استعمال کے قابل بنانے کا رواج رائج نہیں ہوا تھا۔ گھاس اور پتوں سے بنے ان جوتوں کا انگریزی نام سٹرو سینڈل ہے۔

پشتون علاقوں میں زیادہ تر میزری کے پتوں سے چپلیں بنائی جاتی تھیں۔ یہ پتے نہایت سخت ہوتے ہیں لہذا پہلے ان کو پانی میں ڈبو کر کچھ گھنٹوں کے لیے نرم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس سے استعمال کی اشیا بنائی جاتی ہیں۔

بدھا چپل

اس چپل کی نقل اس وقت پوری دنیا کے مارکیٹوں میں دستیاب ہے خصوصی طور پر خواتین اس کو بہت پسند کرتی ہیں۔ بدھا چپلوں کا یہ ڈیزائن پشاور اور ہنڈ کے عجائب گھروں میں گوتم بدھ کے پیروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

چپلوں کی یہ قسم پنجہ دار کہلاتی ہے، جو 19 ویں صدی کے وسط تک پشتونوں میں بہت عام تھی۔ اس چپل کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں بکسوے کی جگہ گرہ لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس جوتے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کیلیں نہیں ٹھونکی جاتیں بلکہ اس کی سلائی صرف ہاتھ سے کی جاتی ہے۔

صوابی کی باذوق خوانین میں اس کی مقبولیت کی وجہ سے آج بھی اس ضلع کے کچھ کاریگر یہ چپل تھوڑی بہت ردوبدل کے ساتھ ہاتھ سے تیار کرتے ہیں۔

گندھارا (موجودہ خیبر پختونخوا اور افغانستان) میں اس جوتے کا تعارف اس وقت ہوا جب اس علاقے پر یونانی حکمران منندر کا راج تھا۔ اسی زمانے میں بدھ مت کا آغاز ہوا اور یوں بدھ مت اور یونانی ثقافت دونوں کا آپس میں ملاپ ہو گیا۔ خود منندر نے بھی بدھ مت مذہب اختیار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے گندھارا یونانی اور بدھ مت کلچر کے زیر اثر آگیا۔ یہ اثرات آج بھی پشتونوں میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

کوخہ

کوخہ ایک قدیم پشتو لفظ ہے۔ ان جوتوں کو پشتو میں ’پنڑے‘ یا ’موچنے‘ کہا جاتا ہے۔ البتہ نئی نسل میں کوخہ اور موچنے دونوں نام متروک ہو چکے ہیں۔

ان جوتوں میں دائیں اور بائیں پاؤں کا فرق آج بھی نہیں ہوتا۔ پرانے زمانے میں کسی بھی طرح کے جوتوں میں دائیں اور بائیں کا تصور نہیں تھا۔ بعد میں قالب کی ایجاد سے سوائے پنڑوں کے تمام جوتوں میں یہ فرق قائم رکھنا پسند کیا جانے لگا۔

دیگر جوتوں کی طرح اس جوتے میں بھی امیر اور غریب کا فرق واضح تھا۔ امیر طبقہ خالص چمڑے سے بنے پنڑوں میں عمدہ کشیدہ کاری کے علاوہ ہیرے و جواہرات بھی ٹانکتے تھے، جو دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ دیرپا بھی ہوتے تھے۔

مغلوں کی آمد پر یہ جوتے ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل گئے۔ اس کا پرانا مرکز کندھار، پشاور، ملتان اور شکار پور ہوا کرتا تھا۔ بعد میں یہ لاہور، امرتسر اور دہلی میں بھی مشہور ہو گیا۔

کنڑاوے

ان جوتوں کو (paduka) بھی کہتے ہیں۔ یہ جوتے لکڑی کے بنے ہوتے ہیں اور ان میں بھی دائیں اور بائیں پاؤں کا فرق نہیں رکھا جاتا۔ اس جوتے کو بارش اور کیچڑ سے بچاؤ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

پڈوکا کو ہندوستان کی ایجاد کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ان جوتوں کو ہندوستان میں پشتونوں نے متعارف کروایا تھا۔ ان جوتوں کو بنانے کا طریقہ پختونوں نے اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا تھا۔

ہندوستان میں اس کا نام ’پنڈوکا‘ پڑ گیا جو بعد میں بگڑ کر پڈوکا بن گیا۔ پنڈوکا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’پیروں کا-‘ پشتونوں میں یہ جوتے اب نایاب ہو چکے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں اس کا استعمال آج بھی کیا جاتا ہے-

 

پشاوری چپل

یہ چپل پشتونوں میں کافی مشہور رہی ہے۔ پرانے وقتوں میں یہ زیادہ تر خوانین اور دیگر صاحب حیثیت لوگوں میں عام تھی۔

پشتون جب سفید روایتی شلوار قمیص اور واسکٹ کے ساتھ دیدہ زیب بھورے یا کالے رنگ کی پشاوری چپل پہن کر کسی مجمع میں جاتے ہیں تودوسری قوموں کے لوگ تعریف کیے بنا رہ نہیں پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال قبل مشہور برطانوی فیشن ڈیزائنر پال سمیتھ نے اس کی نقل بنا کر گلوبل مارکیٹ میں رکھ کر خوب کاروبار کیا۔

جو جوتے خیبر پختونخوا میں پانچ سو سے لے کر تین ہزار روپے میں بکتے تھے ان کی قیمت سمیتھ نے تیں سو سے پانچ سو ڈالر تک رکھ دی۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی اکثر پشاوری چپل پہنے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے پورے پاکستان میں ان کے پرستاروں میں اس چپل کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے اس چپل کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا جیسا کہ شیرانی چپل، مہمند چپل، کوہاٹی چپل، پشاوری چپل اور چارسدوال چپل، لیکن اب ہر جگہ اس کو کپتان چپل کے نام سے یاد کیا جانے لگا ہے۔

پشاوری چپل کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: بند چپل اور پنجہ دار چپل۔

بند چپل کا استعمال عموماً سردیوں میں کیا جاتا ہے- یہ گائے کے چمڑے سے بنائی جاتی ہے اور ہاتھ یا پھر مشین سے اس کو استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج کل ایسے کاریگر بہت کم پائے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ضلع صوابی اور چارسدہ میں کچھ ایسے کاریگر ہیں جو ایک مہینے کی مدت میں ایک جوڑا تیار کرتے ہیں جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ دیرپا اور آرام دہ بھی ہوتا ہے۔

اس کی دوسری قسم یعنی پنجہ دار چپل کھلی ہوتی ہے۔ یہ بھی ہاتھ یا پھر مشین سے تیار کی جاتی ہے۔ اس میں قیمتی اور کم قیمتی ہر طرح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جوتے کا رواج کم پڑ گیا ہے۔ لہذا موسم گرما میں بھی زیادہ تر بند چپل کو ترجیح دی جاتی ہے۔

 تقریباً 19 ویں صدی کے وسط تک پشتون خواتین میں بھی یہی چپل پہننے کا رواج تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا اور اس کا استعمال صرف مردوں تک محدود ہو گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ