2019: پولیو کیسز کی تعداد گذشتہ تین سال کی مجموعی تعداد کا 55 فیصد

گذشتہ تین سال کے دوران مجموعی طور پر 40 پولیو کیس سامنے آئے جبکہ 2019 کے صرف پہلے پانچ مہینوں میں یہ تعداد 22 ہو چکی۔

مجموعی طور پر 2019کے دوران ابھی تک پولیو کے 16 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں 2019 کے پہلے پانچ مہینوں میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد گذشتہ تین سالوں کی مجموعی تعداد کا 55 فیصد ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ پولیو کیس خیبر پختون خوا اور قبائلی اضلاع میں سامنے آئے۔ حیرت انگیز طور پر پنجاب میں بھی تین بچوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین سالوں (2016 سے 2018) کے دوران پورے ملک میں مجموعی طور پر 40 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، جبکہ 2019 کے پہلے پانچ مہینوں میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 22 ہو چکی ہے۔

وزیر اعظم کے پولیو سے متعلق فوکل پرسن بابر بن عطا نے پولیو کیسز کی تعداد میں اضافے کی واحد وجہ والدین کا بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار قرار دیا۔

اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ کی مثال دی، جہاں حال ہی میں خسرہ وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

نیویارک سمیت امریکہ کی 26 ریاستوں میں تقریبا ایک ہزار بچے خسرہ جیسی خطرناک بیماری سے متاثر ہو چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بابر نے کہا: ہم اس وقت انکار کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ جس کی وجہ ویکسین سے متعلق غلط تصورات ہیں۔

پاکستان میں نئے پولیو کیسز کے حوالے سے خیبر پختون خوا اور اس ملحقہ قبائلی اضلاع سر فہرست رہے۔ جہاں مجموعی طور پر سال رواں کے دوران ابھی تک پولیو کے 16 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔

پولیو سے متاثرہ ان 16 بچوں میں سے نو کا تعلق خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں اور سات کا قبائلی اضلاع سے ہے۔2018، 2017 اور 2016 میں خیبر پختون خوا سے رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد بالترتیب دو، ایک اور آٹھ تھی۔

اسی طرح، 2017 میں قبائلی اضلاع سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا، جبکہ 2018 اور 2016 میں یہ تعداد بالترتیب چھ اور دو رہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختون خوا میں پولیو کوآرڈینیٹر کامران آفریدی کے مطابق: شہر پشاور دنیا بھر میں پولیو وائرس کا سب سے بڑا ذخیرہ (ریزروائر) بن چکا ہے۔

بین الاقوامی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپریل میں پشاور کے بعض علاقوں سے ماحولیاتی نمونے حاصل کیے تھے، جن کی لیبارٹری میں جانچ سے ثابت ہوا کہ پشاور اور اس کے گردو نواح کے بعض علاقوں میں پولیو وائرس بڑی تعداد میں موجود ہے۔

کامران آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایسی صورت حال میں ویکسین پلانا ہی اس بیماری کو ختم کرنے کا واحد حل ہے۔

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی پولیو کے حوالے سے صورت حال غیر تسلی بخش اور تشویش ناک ہے۔

پنجاب میں 2017 میں صرف ایک بچے میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی جبکہ 2016 اور 2018 میں کوئی پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

مئی 2019 تک پنجاب میں تین نئے بچے پولیو کے جان لیوا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

اسی طرح، سندھ میں بھی گذشتہ سال کے ایک پولیو کیس کی نسبت اس سال کے پہلے پانچ مہینوں میں تین بچے پولیو کا شکار ہوئے۔ البتہ بلوچستان میں اس سال کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔

پاکستان، افغانستان اور نائجیریا کے ساتھ دنیا کے ان تین ملکوں میں شامل ہے جہاں ابھی تک پولیو وائرس موجود ہے۔ بین الاقوامی ادارہ صحت کسی ملک میں متواترتین سال تک

پولیو کا کیس سامنے نہ آنے کی صورت میں اسے پولیو سے آزاد (پولیو فری) ملک قرار دیتا ہے۔

بابر کا کہنا تھا کہ اکثر والدین پولیو ویکسین کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کو ویکیسن نہیں پلائی ہوتی لیکن پولیو ٹیموں سے کہتے ہیں کہ ویکسین پلا دی ہے۔

’پولیو ویکسین نہ پینے والے یہی بچے اس جان لیوا وائرس کے پھیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صورت حال مایوس کن ہے، لیکن حکومت اس سلسلے میں پرعزم ہے اور پولیو کو ہر صورت ختم کرنا ہو گا۔

مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق بات کرتے ہوئے بابر نے کہا: ہم لوگوں میں پولیو سے متعلق شعور بیدار کریں گے۔ ’لوگوں کو بتانا اور منوانا ہو گا کہ پولیو خطرناک بیماری ہے اور اس کا واحد بچاؤ ویکسین ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی صحت