سوات موٹروے پر گائیں، بھینسیں اور موٹر سائیکلیں

موٹروے کا صرف 75 فیصد مکمل ہے اور جو حصہ مکمل بھی ہے وہاں بنیادی سفری سہولیات میسر نہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے عید کے موقعے پر عوام کو مطلع کیا تھا کہ سوات موٹروے ہلکی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے۔

اس اعلان سے پہلے بھی حکومت ایسے ہی دعوے کر رہی تھی، لہذا انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے نے عید پر سوات موٹروے پر سفر کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ حکومتی دعوؤں میں کتنی سچائی ہے۔

منصوبے کے مطابق یہ چھ انٹرچینجز پر مشتمل موٹروے ہو گی، جس سے اسلام آباد ۔ سوات کا سفر صرف تین گھنٹے اور پشاور ۔ سوات کا سفر ڈھائی گھنٹے میں طے ہو سکے گا۔

سوات موٹروے کا آغاز مردان سے پہلے کرنل شیر خان انڑچینج سے چکدرہ انڑچینج تک ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے چھ جون کو فیس بک پر لکھا گیا کہ یہ موٹروے عوام کے لیے تحفہ ہے اور یہ کہ اس موٹروے کی وجہ سے 'تین گھنٹے کا سفر محض پینتالیس منٹوں میں طے کیا جاسکے گا'۔

یہ بھی کہا گیا کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور خیبر پختونخوا ہائی وے اتھارٹی نے اسے 'ریکارڈ مدت میں تعمیر کیا۔'

حکومتی اعلانات کے پیش نظرعوام کی بڑی تعداد نے عید الفطر پر سوات کا رخ کیا مگر حکومتی دعوؤں کی قلعی اس وقت کھلی جب موٹروے پر سفر کرتے ہوئے پتہ چلا کہ اس کا صرف 75 فیصد مکمل ہے اور جو حصہ مکمل بھی ہے وہاں آپ کو بنیادی سفری سہولیات میسر نہیں۔

آپ کو موٹروے پر قیام و طعام کی کوئی بھی سہولت مکمل تعمیرشدہ نہیں ملے گی، تمام انتظامات عارضی ہیں۔

کٹلانگ کے مقام پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ موٹروے صرف وہیں تک ہے اور کٹلانگ انٹرچینج پر اترنے کے بعد آپ موٹروے پر نہیں رہتے۔ اس کے بعد موٹروے کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ کام کرنے والی مشینری موجود ہے مگر مزدور موجود نہیں۔ راستہ موجود ہے مگر آپ اسے سڑک نہیں کہہ سکتے۔

ظلم کوٹ کے مقام پر موجود سرنگ، جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہیں، مگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس تک پہنچنے کے لیے راستہ نہایت دشوار اور بیشتر 1000 سی سی سے کم گاڑیوں کے لیے تقریبا نا ممکن ہے۔

سرنگ تک پہنچنے کے لیے پہاڑی راستے سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ چڑھائی اور ڈھلوانیں بہت مشکل ہیں، یہاں تک کہ پاک فوج کے سپاہی سڑک پر موجود ہیں جو کہ ایک وقت میں چند گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔

اور اگر آپ سرنگ کراس کر لیں تو اس کے بعد چکدرہ تک آپ کو سڑک کا نام و نشان نہیں ملے گا، کچے راستے اور زیر تعمیر سڑکیں آپ کا مقدر ہوں گی۔

نیز موٹروے پولیس آپ کو بالکل بھی نظر نہیں آئے گی۔ گاڑی چلاتے ہوئے کسی بھی وقت سڑکوں کے اطراف جنگلے ہونے کے باوجود کوئی بھی جانور آپ کی گاڑی کے آگے آ سکتا ہے۔ جانور تو کیا موٹر سائیکل سوار بھی سڑک کے بیچ آ سکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو