انڈونیشیا کا فوجی ماضی اور امیر جنرل

انڈونیشیا کے جمہوری سفر میں ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے بہت سارے سبق پنہاں ہیں۔ وہاں کی فوجی قیادت تقریبا 32 سال بلاشرکت غیر حکمرانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ ملک چلانا فوج کے بس کی بات نہیں۔

انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا مسلمان جمہوری ملک ہے اور جلد ہی ایک ٹریلین ڈالرز کی معیشت بننے جا رہا ہے۔ اس ملک کی جمہوری جدوجہد میں لاکھوں نے جانوں کی قربانی دی۔
انڈونیشیا کا جمہوری سفر پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہا۔ دونوں لمبے عرصے تک فوجی آمریت کے زیر تسلط رہے۔ ہماری فوجی مداخلتیں پرامن رہیں جبکہ انڈونیشیا کا 1965 کا فوجی انقلاب انتہائی پرتشدد رہا جس میں ایک آزاد اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد کو سیاسی بنیادوں پر قتل کیا گیا۔ حکومتی ذرائع غیر رسمی طور پر پانچ لاکھ کے نمبر پر متفق ہیں۔
اس فوجی انقلاب کے بعد انڈونیشیا میں ایک نیا سیاسی نظام تشکیل دیا گیا جس میں یہ یقینی بنایا گیا کہ فوج زندگی کے ہر شعبے میں کلیدی کردار ادا کرے۔
یہ کردار سیاسی، دفاعی، معاشی اور گورننس کے شعبوں میں مکمل طور پر حاوی رہا۔ فوج کو اس کی دفاعی ذمہ داریوں کے علاوہ ایک نیا سیاسی کردار دیا گیا جسے ’دہری ذمہ داری‘ کا نام دیا گیا اور اس کے تحت گاؤں کی سطح تک سول انتظامیہ میں فوج کا کردار شامل کیا گیا۔
اس نظام کے تحت منتخب پارلیمان میں بھی فوج کو بڑی نمائندگی دی گئی اور حاضر سروس فوجی افسران پارلیمان کے پانچ سال کے لیے ممبر منتخب کیے جاتے ریے۔ تقریبا تمام بڑے کاروباروں میں فوج کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا اور ساتھ ساتھ سارے معاشرے میں عسکری عادات کو پروان چڑھایا گیا۔
تمام سول اداروں میں اہلکاروں کے لیے صبح آفس میں کھلے میدانوں میں ورزش لازمی قرار دی گئی اور تمام سول اہلکاروں کے لیے فوجی انداز کی وردی کو بھی رائج کیا گیا۔  پولیس کو بھی فوج کا حصہ قرار دیا گیا اور فوج کے عہدے داران پولیس کے اہم عہدوں پر فائز کیے گئے۔
شہروں کے مئیر بھی فوج سے تعینات کیے جانا شروع ہوگئے۔ تفریح کے تمام بڑے بڑے مراکز جن میں ہوٹل، نائٹ کلب اور مساج پارلرز شامل تھے فوج کے زیر انتظام کام کرنے لگے۔ تقریبا تمام معاشرے پر فوج کا کنٹرول مکمل ہوگیا تھا۔
بڑے شہروں میں سویلینز کو کچھ کاموں میں شامل تو کیا گیا مگر دور دراز علاقوں میں تقریبا ہر ادارہ فوج کے کنٹرول میں تھا۔ چونکہ انڈونیشیا جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے اس لیے اسے کسی بڑے بیرونی دشمن کا بھی خوف نہیں تھا جس نے فوج کو اجازت دی کہ وہ ملک کے اندرونی معاملات میں مکمل خود مختار ہو سکے۔ یہ صورتحال تقریباً 32 سال تک جاری رہی اور 1998 کے ’سول انقلاب‘ کے بعد آہستہ آہستہ اختتام پذیر ہوئی۔
چونکہ ان 32 سالوں میں سیاسی استحکام رہا تو معاشی طور پر ملک نے کافی ترقی کی۔ ملک کے اس خصوصی نظام سے دولت کچھ ہاتھوں میں جمع ہونی شروع ہو گئی۔ چونکہ انڈونیشیا میں ایک بہت بڑی تعداد چینیوں کی بھی تھی اور وہ کامیاب تاجر بھی تھے تو انہوں نے فوجی حکمران سوہارتو کے ساتھ مل کر ملکی معیشت کو آگے بڑھایا اور اپنی دولت میں بھی بے انتہا اضافہ کیا۔

اس اتحاد کی وجہ سے 1998 کے انقلاب کے وقت انڈونیشیا کی تقریبا 70 فیصد کارپوریٹ دولت چینیوں کے ہاتھ میں تھی تھی۔ سوہارتو خاندان نے بھی اس معاشی ترقی سے خوب فائدہ اٹھایا اور ٹائمز میگزین کے مطابق 1998 میں یہ خاندان تقریبا 16 بلین ڈالرز کے ساتھ انڈونیشیا کا امیر ترین خاندان تھا جو کہ گاڑیاں بنانے سے لے کر ٹول روڈ تک چلانے کا کام سنبھالے ہوئے تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


سوہارتو کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھی جنرل بھی اس بہتی گنگا سے فیض حاصل کرتے ہوئے بےتحاشا امیر ہوئے۔ چونکہ اس معاشی کرپشن یا سرپرستی سے سب ہی فائدہ اٹھا رہے تھے لہذا سیاسی مسائل کم پیدا ہوئے۔
فوج کا کنٹرول اس قدر مکمل تھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی حکومت کی منظوری کے ساتھ منتخب ہوتے تھے اور اس کا اطلاق مذہبی جماعتوں پر بھی تھا، کیونکہ ملک میں خوشحالی آ رہی تھی توعام سطح پر کسی قسم کی سیاسی بےچینی محسوس نہ کی گئی۔
صدر سکارنو کی بیٹی میگاوتی حکومت کی مخالف رہی لیکن ان کی سیاسی جدوجہد سے انتہائی سختی سے نمٹا گیا جس سے وہ اس پوزیشن میں نہ رہیں کہ کسی تحریک کی ابتدا کر سکیں۔
انڈونیشیا میں کرپشن کا کلچر سوہارتو دور میں خوب پروان چڑھا اور پورے معاشرے میں سرایت کر گیا۔ عام طور پر اسے ’ہدیہ‘ سمجھا جاتا تھا۔ یہ روایت ابھی بھی موجود ہے۔ کرپشن تقریبا مکمل طور پر معاشرے کے ہر حصے میں چھا گئی تھی۔ اسے ایک طرح سے سرکاری سرپرستی بھی حاصل رہی۔ عموماً دفاتر میں ہدیے کے بغیر کوئی کام نہ ہوتا تھا۔ اسے عام طور پر اللہ کی طرف سے آئی ہوئی نعمت سمجھا جاتا ہے۔
 یہ صورتحال اسی طرح چلتی رہتی اور ملک میں فوجی جمہوریت کا راج رہتا اگر 1997 کا ایشیائی مالی بحران نہ آتا۔ اس بحران نے انڈونیشیا، سنگاپور، ملیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا۔
چونکہ انڈونیشیا کی آبادی ان دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی اس لیے اس بحران نے انڈونیشیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ یہ بحران دنوں میں متوسط طبقے کوغربت کی لکیر سے نیچے لے آیا۔ کرنسی کی قیمت میں تقریبا سات گنا کمی نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا۔
عوام نے اس بحران کی وجہ اشرافیہ کو قرار دیا جس نے بے تحاشا بیرونی قرضے لے کر انڈونیشیا کی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں یرغمال رکھ دیا تھا۔ اس اشرفیہ میں چینی تاجروں کو معاشی بحران کا زیادہ ذمہ دار سمجھا گیا۔
اس معاشی بحران اور عوام کے غصے کو سوہارتو مخالف قوتوں نے مہارت سے استعمال کیا اور عوامی مظاہروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس بحران کو ہوا دینے میں کچھ فوجی اہلکار بھی شامل تھے جو سوہارتو کی لمبی حکومت سے تنگ آ چکے تھے۔ طالب علموں نے بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس تحریک نے ’اصلاحی تحریک‘ کا نام پایا۔ یہ تحریک مختلف شہروں میں کافی پرتشدد رہی اور سینکڑوں لوگوں کی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ چینیوں کے کاروبار اور گھروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس پرتشدد پس منظر میں صدر سوہارتو کو استعفیٰ دینا پڑا اور اصلاحی تحریک نے ایک جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے نئی حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کیا، جس کی وجہ سے انڈونیشیا تقریبا 21 سالوں سے ایک مضبوط جمہوری معاشرے کی طرف گامزن ہے۔
1998 کے انقلاب کے بعد اب تک چھ دفعہ صدارتی انتخابات ہوئے ہیں اور پرامن جمہوری سفر جاری ہے۔ اس جمہوری سفر میں آہستہ آہستہ معاشرے میں فوجی کنٹرول اور اثر کا خاتمہ کیا گیا۔ اس دانش مندانہ اقدام  سے ایک پرامن جمہوری معاشرتی تبدیلی آئی جو وقتاً فوقتاً مشکلات کے باوجود اعتماد سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
انڈونیشیا کے اس جمہوری سفر سے ہم بھی رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جمہوری قوتوں کو صبر اور اعمتاد کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے اور مقتدر قوتوں سے اپنا جمہوری اور جائز حق آہستہ آہستہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ ایک ارتقائی عمل کی صورت میں جمہوری اداروں کو طاقت اور دوام بخشے گا اور اس سلسلے میں جلد بازی جمہوریت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تمام جمہوری جماعتیں اور قوتیں مل کر ایک لائحہ عمل طے کریں اور پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیں۔ مقتدر قوتوں کو بھی چاہیے کہ سیاسی نظام میں کم از کم مداخلت کریں اور اسے فطری انداز میں پھلنے پھولنے کا موقع دیں کیونکہ اسی میں ملک کی بقا ہے۔
انڈونیشیا کے جمہوری سفر میں ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے بہت سارے سبق پنہاں ہیں۔ وہاں کی فوجی قیادت تقریبا 32 سال بلاشرکت غیر حکمرانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ ملک چلانا فوج کے بس کی بات نہیں اور جمہوری قوتوں نے یہ جانا کہ فوجی قیادت کو اس کے پیشہ وارانہ معاملات میں کسی بھی اچھے ادارے کی طرح آزادی دی جائے اور اس کے بعد اس کو احتساب کے سامنے لایا جائے۔
فوجی قیادت یا کسی بھی ادارے کی قیادت کو ذاتی خواہشات کا تابع نہ سمجھا جائے اور انہیں آئینی قیود وضوابط میں رہ کر کام کرنے دیا جائے اور اسی مشق سے جمہوری قیادتوں کو بھی گزرنا چاہیے۔                        

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر