پاکستانی معیشت میں بہتری آتے آتے آئے گی

اب عمران خان کی حکومت کو نہ تو ماضی جیسے دہشت گردی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے اور نہ ہی بجلی کی کمی کا۔ تو مبصرین کے خیال میں معیشت میں بہتری کے لیے ان کے پاس یہ بہترین موقع ہے۔

(اے ایف پی)

پیپلز پارٹی کا بیانیہ مستقل یہ رہا کہ 2008 سے شروع ہونے والے اس کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان کو ملک کی بدترین دہشت گردی نے جکڑے رکھا، اسی وجہ سے وہ عوام کی فلاح کے لیے کچھ زیادہ نہ کرسکے۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے پانچ سال تحریک انصاف کے مسلسل احتجاج اور پانامہ لیکس کا رونا رویا اور معیشت کی جانب توجہ نہ دی۔ پھر مسلم لیگ (ن) کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی کی کمی پورا کرنے کے لیے بھاری بھرکم پلانٹ درآمد ہوئے تو اس لیے ڈالروں کی شدید کمی کا شکار ہونے کے بعد معیشت مزید بیٹھ گئی۔

اب عمران خان کی حکومت کو نہ تو ماضی جیسے دہشت گردی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہے اور نہ ہی بجلی کی کمی کا۔ تو مبصرین کے خیال میں معیشت میں بہتری کے لیے ان کے پاس یہ بہترین موقع ہے۔ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ اور ہے بھی نہیں۔ جب ہاتھ میں پیسہ نہ ہو تو کوئی گھر نہیں چل سکتا ملک تو دور کی بات ہے۔ ملکی معیشت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر ابھی دوا نہ کی گئی تو پھر دعاوں کا وقت بھی گزر چکا ہوگا۔

موجودہ صورت حال میں معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی کا بتایا جا رہا ہے۔ بڑھتا ہوا قرضوں کا بوجھ ہے اور اسے ادا کرنے کے لیے حکومت کے پاس پیسے موجود نہیں۔ پاکستان کی گذشتہ برس کی اقصادی جائزہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ’گذشتہ دس برسوں میں زرمبادلہ کمانے کی استطاعت صفر رہی۔ آمدن سے زیادہ خرچے کیے گئے، قرض لیا گیا اور اب ان قرضوں پر اربوں ڈالرز سود دینا پڑ رہا ہے۔‘ ایسے میں وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے سنگین خطرے کا بھی اظہار کیا ہے۔

ایسے میں فوج نے بھی اس مرتبہ دفاعی بجٹ میں اضافے کا تقاضا نہ کرنے کی خبر دی۔ لیکن بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ جب خزانہ خالی ہو تو کسی کو کوئی کیا دے سکتا ہے۔ قصہ مختصر معیشت انتہائی خراب وقت سے گزر رہی ہے۔ سعودی عرب اور چین سمیت تمام دوست ممالک جتنی مدد کرسکتے تھے (یعنی 9.2 ارب ڈالرز) وہ انہوں نے کر دی۔

اس پر فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے جو دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤ کی صورت حال بنائے ہوئے ہیں۔ اس سب کے باوجود سب سے زیادہ شاید عمران خان کی معاشی ٹیم نے خود مسئلہ خراب کیا ہے۔

2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد معاشی میدان میں ان کے سپہ سالار اول اسد عمر نے آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج لینے میں آٹھ نو ماہ کی تاخیر کر دی جس سے حالات مزید خراب ہوئے۔ معاہدے کے مطابق آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالرز انتہائی سخت شرائط سے ساتھ ملیں گے لیکن معیشت سنبھلتے سنبھلتے سنبھلے گی۔ اب خود تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے عوامی سطے پر تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ گذشتہ برس اکتوبر تک طے کر لیا جانا چاہیے تھا۔ خیر اب پرانے تجربہ کار کھلاڑیوں جیسے کہ ڈاکٹر عبدالحفظ شیخ کو میدان میں لایا گیا ہے تاکہ وہ کوئی معجزہ دکھا سکیں۔ لیکن چیلنج انتہائی سخت ہے۔

سب سے زیادہ زور ٹیکسوں کے ذریعے مزید وسائل پیدا کرنے کی کوشش پر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خود کئی بار قوم سے ٹیکس ادا کرنے اور نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے 30 جون تک فائدہ اٹھانے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے والے تنگ ہیں کہ کتنا ٹیکس دیں۔ تنخواہ دار طبقہ پستا جا رہا ہے جبکہ جس نے ٹیکس نہیں دینا وہ نہیں دینے کی رٹ پر قائم ہے اور اس مقصد کے لیے نئے نئے راستے بھی تلاش کر رہا ہے۔

تاہم وزیر اعظم انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کئی ممالک سے معاہدے کیے ہیں اور خفیہ ایجنسیوں نے بھی ان کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ نادہندگان 30 جون کے بعد بچ نہیں سکتے، لیکن اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے؟

خود وزیر اعظم عمران خان کے دئیے گئے ٹیکس کے پر اپوزیشن کو اعتراض ہے۔ وہ انہیں ٹیکس چور وزیر اعظم قرار دیتے ہیں کیونکہ عمران خان کے ظاہر کیے گئے ٹیکس ریٹرن کے مطابق انہوں نے 2017 میں محض ایک لاکھ تین ہزار پاکستانی روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ جس نے ٹیکس سے بچنا ہو وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو جائے۔ ان کا اشارہ شاید وزیر اعظم کے علاوہ ان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی جانب ہے جنہوں نے جرمانہ ادا کرکے گذشتہ دنوں اپنی جان بچائی۔

وہ وفادار پاکستانی جو پہلے سے  بھاری ٹیکس دیتے ہیں، اطلاعات ہیں کہ نئے بجٹ میں ان پر مزید بوجھ ڈالا جاسکتا ہے۔ یہ تو براہ راست ٹیکس کی بات ہے لیکن بجٹ میں بجلی، گیس اور معلوم نہیں کیا کچھ اور بھی مہنگا ہونے جا رہا ہے کیونکہ ان پر بھی ٹیکس میں اضافے کا قوی امکان ہے۔

فی الحال جو بات واضح ہے کہ پاکستانی معیشت کا اگلا سال کوئی زیادہ اچھا نہیں ہے۔ بہتری آتے آتے آئے گی البتہ یہ پھر بھی واضح نہیں کہ کیا یہ بہتری دائمی ہوگی یا نہیں۔ کیا اس مرتبہ لیا گیا قرضہ آخری آئی ایم ایف پیکج ہوگا یا نہیں؟

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ