چین کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کا قانون، ہانگ کانگ میں احتجاج

جے لی اور ایلس لی کی جوڑی ان دسیوں ہزاروں لوگوں میں سے محض ایک تھی جو بدھ کو ایک متنازع مسودہ قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جس کی منظوری کے بعد ہانگ کانگ اور چین مجرموں کا تبادلہ کرسکیں گے۔

12 جون کو ہانگ کانگ میں کیے جانے والے ایک مظاہرے پر قابو پانے کا ایک منظر (رائٹرز)

چہرے پر ڈاکٹروں والے ماسک اور آنکھوں پر عینک لگائے ہانگ کانگ کے مکین جے لی اور ایلس لی کچھ دیر آرام کے لیے شہر کی قانون ساز کونسل کے قریب واقع انڈر پاس میں چلے گئے۔ ان کے عقب میں مظاہرہ کرنے والوں کو مرچوں والے سپرے کی تیز بدبو اور آنسو گیس کا سامنا تھا۔ مظاہرین نے اپنے چہرے گیلے تولیے سے صاف کیے۔ پولیس نے کچھ مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں بھی چلائی تھیں۔

جے لی نے مظاہرین کو گھیرے میں لیتی پولیس کی کارروائی بیان کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔

جے لی اور ایلس لی کی جوڑی ان دسیوں ہزاروں لوگوں میں سے محض ایک تھی جو بدھ کو ایک متنازع مسودہ قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جس کی منظوری کے بعد ہانگ کانگ اور چین مجرموں کا تبادلہ کرسکیں گے۔

بدھ کی صبح مظاہرین شہر کی بڑی سڑکیں اور قانون ساز کونسل کے باہر گاڑٖیوں کی پارکنگ بند کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  اس صورت حال کے پیش نظرکونسل مجرموں کی تحویل سے متعلق مسودہ قانون دوسری خواندگی تک موخر کرنے پر مجبور ہو گئی لیکن دوپہر کے بعد پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔

پریشان دکھائی دینے والی ایلس لی نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا کہ کیا وہ پولیس سے خوفزدہ ہیں ؟ تاہم اس کا کہنا تھا کہ جوان لوگ ہانگ کانگ کو بچانے میں مصروف ہیں۔

جے لی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بندوقیں نہیں ہیں۔ وہ صرف پرامن احتجاج چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ پولیس ان پر حملہ آور ہو۔

تحویل مجرمان کے مسودہ قانون پر ہانگ کانگ کے مکینوں کو کئی برس میں پہلی بار اتنا غصے میں دیکھا گیا ہے۔ اس معاملے پرعام شہری بھی طلبا اور جمہوریت کے حامی کارکنوں کے پہلے سے جاری احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔

جے لی اور ایلس لی کی طرح ہانگ کانگ کے بہت سے مکینوں کو خوف ہے کہ تحویل مجرمان قانون ایک اشارہ ہے کہ  برطانیہ کی سابق نو آبادی ہانگ کانگ نے اپنی خود مختاری مکمل  طور پر چین کے سپرد کردی ہے حالانکہ ہانگ اور چین کے اتحاد کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ’ ایک ملک دو نظام ‘ کے فارمولے کے تحت ہانگ کانگ کی نیم آزاد حیثیت 2047 تک برقرار رکھی جائے گی۔

مظاہرے کے منتظمین کے مطابق اتوار کو ہرعمر اور پس منظر کے تقریباً 10 لاکھ افراد نے تحویل مجرمان قانون کے خلاف سڑکوں پر مارچ کیا تھا۔

1997 میں ہانگ کانگ کی چین کی عملداری میں واپسی کے بعد اس ہفتے کے اختتام پر ہونے والے مظاہرہ سب سے بڑا تھا۔ حکومتی سطح پر متنازع قانون پر مسلسل پیشرفت کی وجہ سے مظاہروں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔

جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے بعد تحریل مجرمان قانون کے خلاف مظاہروں سے ہانگ کانگ میں سب سے بڑے سیاسی بحران کی عکاسی ہوتی ہے۔ 2014 میں جمہوریت نواز ’ چھتری تحریک ‘ کے دوران ہونے والے مظاہروں میں شہر کے وسطی علاقے 3 ماہ سے زیادہ عرصے تک بند رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحویل مجرمان قانون پر بدھ کو رائے شماری ہونی تھی جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر 20 جون تک موخر کر دی گئی  ہے۔

مظاہرین نے کھانے پینے کی اشیا، پانی کی بوتلیں، چہرے کے لیے ماسک، آنکھوں میں ڈالنے کے لیے سلوشن، دیگر ادویات اور عینکیں سڑکوں کے کنارے پر اکٹھی کرلی ہیں۔

صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری بھی موجود ہے۔ 5 ہزار پولیس افسروں کو موقعے پر بھیج دیا گیا ہے۔ بہت سے افسر مظاہرین سے نمٹنے کے لیے ضروری لاٹھیوں اور ماسک جیسے سامان سے پوری طرح لیس ہیں۔ پولیس میڈیا اور مظاہرین دونوں کو ایک ساتھ پیچھے ہٹانے میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔

ہانگ کانگ کے عام شہریوں نے آگے بڑھ کر مظاہرین کی حمائت کی ہے۔ کرس لی نے ملک کے بیرونی جزیروں میں ایک جزیرے پرواقع اپنی بیکری بند کرکے مظاہروں میں حصہ لیا حالانکہ بہت سے لوگوں کی طرح وہ اپنے آپ کو غیر سیاسی قرار دیتے ہیں۔

تحریل مجرمان قانون پرغصے کی وجہ سے بدھ کو کرس لی بھی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے ان افراد میں شامل ہو گئے تھے جنہوں نے مظاہرے کی حمائت میں دکانیں بند کر دی تھیں۔  

کرس لی کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو کچھ کرنا ہوگا ورنہ ہانگ کانگ مر جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو شہریوں کی فکر ہونی چاہییے تھی لیکن انہیں محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری حکام بالکل غلط ہیں۔

کرس لی مزید کہتے ہیں کہ 1989 میں بیجنگ کے تیانن من چوک میں ہونے والے مظاہرے کے دوران چینی حکومت نے اپنے ہی شہریوں پر حملہ کر دیا تھا۔ کانگ کانگ کے دوسرے شہریوں کی طرح انہوں نے بھی یہ منظر دیکھا تھا۔ کرس لی کے مطابق شہری اس سے بھی خوفزدہ ہیں کہ کانگ کانگ کو محض چین کے قریب ہی لانے کا مطلب کیا ہو گا ؟

مجوزہ تحویل مجرمان قانون نے بین الاقوامی کاروباری گروپس اور حکومتوں  کو جن میں برطانیہ اور یورپی یونین بھی شامل ہیں تشویش ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مئی کے آخر میں برطانیہ اور کینیڈا نے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ یہ بل ان ’ حقوق اور آزادیوں ‘ کو متاثر کرے گا جن کا ہانگ کانگ کے چین کے ساتھ اتحاد کے وقت وعدہ کیا گیا تھا۔

حیاتیاتی سائنسز کے شعبے سے منسلک بلانچ چن کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ’ ایک ملک دو نظام ‘ کا فارمولہ عملی طور پر تباہ کردیں گے۔

بلانچ چن اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ تحویل مجرمان قانون سے ہانگ کانگ کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ  اور کاروباری ماحول کس طرح متاثر ہوں گے جبکہ سینکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہانگ کانگ کو ایشیا میں اپنا ہیڈ کوارٹربنا رکھا ہے۔

بلانچ چن مزید کہتے ہیں کہ تحویل مجرمان قانون سے نہ صرف ہمارا مستقبل متاثر ہو گا بلکہ بین الاقوامی کمپنیاں دوسرے ملکوں میں منتقل ہو جائیں گی جس سے ان میں کام کرنے والے ہانگ کانگ کے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔

تحویل مجرمان کے قانون کے تحت ہانگ کانگ لوگوں کو کیس کی نوعیت کے مطابق  چین سمیت ان ملکوں کے حوالے کرسکے گا جن کے ساتھ اس کا مجرموں کے تبادلے کا طویل مدتی معاہدہ نہیں ہے۔ تحویل مجرمان قانون بنانے کی ضرورت گذشتہ برس تائیوان میں ہونے والے ایک قتل کے بعد محسوس کی گئی۔ تائیوان اور ہانگ کانگ میں مجرموں کے تبادلے کا مستقل معاہدہ موجود نہیں ہے۔

ہانگ کانگ بارایسوسی ایشن کے مطابق چین کے قانونی نظام پر تحفظات کی وجہ سے ہانگ کانگ نے اتحاد کے وقت چین کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں کیا تھا۔

کتاب ’ احتجاج کا شہر : ہانگ کانگ میں اختلاف کی حالیہ تاریخ ‘ کے مصنف انٹونی ڈپارین کہتے ہیں موجودہ مظاہرہ 2014 کے جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں جیسا لگتا  ہے لیکن اس بار مظاہرین کئی لحاظ سے زیادہ متحد ہیں۔

انٹونی ڈپارین کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے لیے احتجاج کہیں آسان ہے کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاست میں تجویز سے زیادہ مخالفت آسان ہوتی ہے اس لیے مظاہرین کو صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ وہ مجرموں کی حوالگی کا قانون نہیں چاہتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا