مصری تہذیب میں عورت کو اہم مقام حاصل تھا

مصری تہذیب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں عورتوں کو مراعات دے کر باعمل بنایا گیا۔

مصری ملکہ نفرتیتی (Philip  Pikart )

1798 میں نپولین نے مصر پر حملہ کیا اور اپنے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سو ماہرین ساتھ لے گیا جنہوں نے آتے ہی قدیم مصری تہذیب پر تحقیق شروع کر دی اور اس کے جو نتائج سامنے آئے اُن سے مصر کی تاریخ آثار قدیمہ اور ادب کے بارے میں اہم تفصیلات سامنے آئیں۔

اسی دوران روزیٹا سٹون کی دریافت ہوئی، جس میں تین تحریریں تھیں، ہیرو غلافی، ڈیموکریٹک اور یونانی۔  یونانی کی مدد سے قدیم مصری رسم الخط ہیرو غلافی کو پڑھ لیا گیا جس کی وجہ سے مصر کے ماہرین نے مصری تاریخ کے بارے میں گم شدہ کڑیوں کو ملا کر اُس کی تاریخ مرتب کی۔

اس سلسلے میں قدیم مصری تہذیب میں عورت کا کیا مقام تھا، اس کی تفصیلات بھی سامنے آئیں۔ دوسری تہذیبوں کی طرح مصری تہذیب میں عورت اور مرد کے درمیان برابری تھی۔ شادی کی رومانوی روایت تھی لڑکا 20 سال کی عمر میں اور لڑکی 12 یا 13 سال کی عمر میں اپنی پسند کی شادی کرتے تھے۔ اس میں شادی کی کوئی رسم ادا نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی اس کا اندراج ہوتا تھا۔ اس موقعے پر دونوں خاندان کے افراد جمع ہوتے تھے اور لڑکی لڑکا ساتھ رہنے کا اعلان کر دیتے تھے۔ مرد کی خواہش کے مطابق اگر عورت زیادہ بچے پیدا کرتی تو وہ اُسے اپنے خاندانی تسلسل کے لیے اچھا سمجھتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اگر اولاد میں دیر ہو جائے تو عورت جادو اور تعویذ کا استعمال کرتی تھی اور ہاتھور دیوی کے مندر میں جا کر نذر نیاز پیش کرتی تھی۔ عورت کو برتھ کنٹرول کا بھی حق تھا۔ طلاق کی صورت میں اُسے جائیداد میں سے 1/3 کا حصہ ملتا تھا اور وہ واپس اپنے باپ کے گھر جا کر رہتی تھی کیونکہ اُس کے لیے کسی مرد کی نگرانی ضروری تھی۔ اگر اُس کے کسی مرد سے جنسی تعلقات ہو جاتے تو بطور سزا اُسے زندہ جلا دیا جاتا تھا لیکن مرد کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔

مصری معاشرے میں عورت کو کئی حقوق حاصل تھے۔ اُسے جائیداد وراثت میں مل سکتی تھی۔ وہ اُس کا انتظام کرنے کی اہل تھی۔ اپنے حق کے لیے عدالت جا سکتی تھی۔ جیوری کا رُکن بننے کا حق رکھتی تھی اور گواہی بھی دے سکتی تھی۔ معاشرے میں عورتیں نچلے طبقے اور اشرافیہ کی نسبت کے لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتی تھیں۔ نچلے طبقے کی عورتیں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں۔ لیکن اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے کاریگری کے مختلف کام بھی کرتی تھیں۔ جیسے کپڑا بُننا، برتن بنانا اور میک اپ کی چیزیں فروخت کرنا۔ لڑکیاں بھی چھوٹی عمر سے ہی گھریلو کاموں میں مصروف ہو جاتی تھیں۔

نچلے درجے کے خاندان دریا کے کنارے رہتے تھے۔ عورتوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ دریا سے پانی لے کر آئیں اور مذہبی معاملات میں بھی عورتوں کو یہ حق تھا کہ وہ مندر میں بطور پجارن مذہبی فرائض انجام دیں۔

مصر میں دیوتا مرد اور عورت دیوی برابری کی سطح پر پوجے جاتے تھے۔ اس لیے مذہبی معاملات سے لے کر سماجی رسومات تک میں عورت کی مرضی پر عمل ہوتا تھا۔ عورت کی روحانی قوت کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ اُس سے خواب کی تعبیر پوچھی جاتی تھی۔

مصر کی آب و ہوا چونکہ خشک اور گرم ہوتی تھی اس لیے عورتیں خاص طور سے اپنی جلد کو خوبصورت رکھنے کے لیے مختلف کریمیں اور تیل استعمال کرتی تھیں۔ میک اپ کے لیے آنکھوں میں کاجل لگانا اور رخساروں پر غازہ ملنا خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ عورت مختلف قسم کے زیورات بھی استعمال کرتی تھیں جن میں کانوں کی بالیاں، گلوبند، ہاتھوں میں کڑے اور انگوٹھیاں وغیرہ وغیرہ۔ اُن کا لباس سفید سوت کا ہوتا تھا جو پورے جسم کو ڈھانکے رکھتا تھا۔ پردے کا کوئی رواج نہیں تھا، لیکن محفلوں میں عورت اور مرد علیحدہ علیحدہ بیٹھتے تھے۔ یہ روایت بھی تھی کہ مرنے کے بعد شوہر اور بیوی کی قبریں برابر ہوتی تھیں۔

بادشاہ اور امرا کی بیگمات معاشرے میں اہم مقام رکھتی تھیں۔ بادشاہ کے حرم میں کئی بیویاں، کنیزیں اور داشتائیں ہوتی تھیں۔ یہ محلات میں رہتی تھیں اور ان کی خدمت کے لیے ملازموں اور خادموں کی بڑی تعداد ہو اکرتی تھی۔ مصر میں یہ روایات تھی کہ فرعون کو اُس وقت تک جائز حکمراں نہیں سمجھا جاتا تھا جب تک کہ وہ شاہی خاندان کی کسی خاتون سے شادی نہ کرے۔ اس لیے اکثر بہن بھائیوں میں شادی ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ اور امراکے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اور دودھ پلانے کی خاطر آیائیں رکھی جاتی تھیں لیکن بعض مائیں خود بچوں کو دودھ پلاتی تھیں۔

مصر کی تاریخ میں بعض عورتوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے جب مواقعے ملے تو اُنہوں نے اُنہیں خوب استعمال کیا۔ جیسے پہلی ملکہ سوبیک نیفرو (وفات: 1802 ق م) نے فرعونہ کا خطاب اختیار کیا تھا۔ دوسری ملکہ ہوٹ شپک (وفات 1458 ق م)  تھی جو فرعونہ بنی۔

مصر کے فرعون جب دربار سجاتے تھے تو نقلی داڑھی لگاتے تھے، اس لیے ہوٹ شپک ملکہ بھی داڑھی لگا کر آتی تھی۔ اس نے اپنے دورِ حکومت میں کئی مذہبی عمارتیں تعمیر کرائیں اور اُن کی دیواروں پر اپنی حکومت کے عہد کے اہم واقعات لکھوائے۔ اس کے بعد آنے والے فرعونوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اُس کے نام کو مصری تاریخ سے نکال دیا جائے۔ لیکن ماہرین آثار قدیمہ نے اس کے نام اور اس کے عہد کو دریافت کر کے عورتوں کی تاریخ میں اہم اضافہ کیا۔

مصر کی تہذیب میں اہراموں کی تعمیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے جہاں مرد فرعونوں کے لیے بڑے اور بلند و بالا اہرام تعمیر ہوئے۔ وہاں شاہی خواتین کے لیے بھی اہراموں کی تعمیر ہوئی مگر اُنہیں سائز میں چھوٹا رکھا گیا۔ مصری تہذیب اور اس میں عورت کے مقام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر تہذیب میں پدرسری کے نظام میں کہیں مرد کی بالادستی کو قائم کر کے عورت کو محکوم رکھا گیا مگر کہیں اُس کا احترام رکھا گیا اور اس کے حقوق کی حفاظت کی گئی۔ مصری تہذیب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں عورتوں کو مراعات دے کر باعمل بنایا گیا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ