پاکستان۔ بھارت میچ: کانٹے کا مقابلہ یا بارش؟

امید ہے بھارت کے خلاف میچ غلطیوں، ضائع شدہ موقعوں اور کھلاڑیوں کی گھبراہٹ کا قصہ نہیں بنے گا۔

اگر پاکستان نے کیچ نہ پکڑے تو بھارت میچ لے اڑے گا اور پاکستانی اپنے زخم چاٹتے رہ جائیں گے (اے پی)

کرکٹ میں تمام مقابلوں کا شہنشاہ، سب سے بڑا کانٹے کا میچ یعنی پاکستان اور بھارت کا میچ آج مانچسٹر میں ہونے کو ہے۔

کمزور دل لوگ اس معرکے کو دیکھنےسے اجتناب ہی کریں اور آج اپنی ٹی وی سکرینز سے دور رہیں تو بہتر ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آج مانچسٹر میں بارش نہ ہو تاکہ کرکٹ شائقین اس اہم میچ سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اس سے پہلے کہ میں دونوں ٹیموں کی ممکنہ میچ پلیننگ کی طرف آؤں۔ میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان میچ کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ اس میں پاکستانی ٹیم کن غلطیوں کے باعث شکست سے دوچار ہوئی اور جن پر قابو پا کر اپنے حریف بھارت کو چت کر سکتی ہے۔

آسٹریلیا سے شکست کے بعد پاکستان کے لیے بھارت سے جیتنا لازمی ہو گیا ہے۔ اگر آسٹریلیا کے خلاف پاکستان پہلے بیٹنگ کرتا تو یہ میچ اس کا ہوسکتا تھا۔

میں یہ کہتی آئی ہوں کہ چاہے موسم اوورکاسٹ ہو اور بے شک پچ پر دو انچ تک گھاس ہو تب بھی پاکستان کو ٹاس جیت کر ہمیشہ پہلے بیٹنگ کرنا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان نروس چیزر ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے زیادہ تر بولر ناتجربہ کار ہیں۔

آسڑیلیا کے خلاف پاکستان نے ٹاس جیتا اور پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی ناتجربہ کار بولنگ سائیڈ، پچ اور موسم کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ انہوں نے شارٹ اور ناقص گیندیں کرائیں، جس سے بلے بازوں کو کھل کے کھیلنے کا موقع ملا۔ شاہین آفریدی اور حسن علی نے نئی گیند کو ضائع کیا اور ان کی خوب پٹائی ہوئی جس کی وجہ سے ٹیم کو نقصان ہوا اور ایک بڑا ہدف ملا۔

جب پاکستان کو 308 رنز کا ٹارگٹ ملا تو بلے بازوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے ہدف تک پہنچنے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اننگز کے دوران کئی مواقع آئے جب میچ پاکستان کی گرفت میں آیا لیکن سینیئرز اور جونیئرز سبھی نے اپنی وکٹیں ضائع کیں جس سے مجھ سمیت تمام شائقین سخت مایوس ہوئے۔   

میں اکثر کہتی ہوں کہ پاکستان کرکٹ میں ہم لفظ ’کاش‘ کا استعمال سب سے زیادہ کرتے ہیں لیکن وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کرکٹ کو سٹریم لائن کریں تاکہ زیادہ میچ جیت سکیں اور لفظ ’کاش‘ کی جان بخش دیں۔   

خدشہ ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ خواب غفلت سے بیدار نہ ہوا اور مسائل سمجھنے میں ناکام رہا تو ملک میں کرکٹ کا انجام بھی ہاکی والا نہ ہو۔

اب ہم یہ امید کرتے ہیں کہ بھارت کے خلاف میچ غلطیوں، ضائع شدہ موقعوں اور کھلاڑیوں کی گھبراہٹ کا قصہ نہیں بنے گا۔ 

بھارت جو اس وقت ورلڈ کپ میں کوئی میچ نہیں ہارا اور ٹاپ ٹیم ہے، ان کے خلاف پاکستان کو 2017 چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کی طرح پرفیکٹ کھیل پیش کرنا ہوگا، یعنی چیک میٹ۔

اس وقت پاکستان ٹیم میں ایک، دو کو چھوڑ کر تقریباً سبھی وہی کھلاڑی ہیں جنہوں نے 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل جیتا۔ اس لیے اگر وہ اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کھیلیں تو بھارت کو شکست دے سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کے خلاف ہمارے ہیرو محمد عامر اور وہاب ریاض کو نئی گیند سے اٹیک کرنا ہوگا۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بھارت کے پاس کئی میچ ونر کھلاڑی ہیں۔ کوہلی جو اس وقت بہت فارم میں ہیں، ان کے علاوہ روہت شرما بہت خطرناک کھلاڑی ہیں۔ ایک روزہ میچوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کے علاوہ ’آئس مین‘ مہیندر سنگھ دھونی جیسے فنشر بھی موجود ہیں۔

ان کے پاس ہارتیک پانڈیا جیسے ورلڈ کلاس آل راؤنڈر بھی دستیاب ہیں۔ یہ کھلاڑی لمبے چھکے مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مشکل وقت میں بولروں کے اعتماد کو تباہ کر سکتا ہے۔

اس لیے ہمارے بولرز کو اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کھیلنا ہوگا۔ بولرز کوچینل میں گیند کرنا ہو گی اور فضول آدھی پچ پر گیندیں کرانے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ ایسی گیندوں کو وہ باآسانی کٹ اور پل کر سکتے ہیں۔ فل لینتھ یعنی انہیں جمی اینڈرسن کی لینتھ سے بولنگ کرنا ہو گی اور ’غیر یقینی کے کوریڈور‘ کو نشانہ بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔  

اپنے پچھلے میچ میں پاکستانی نوجوان بولرز نے اتنی فضول بولنگ کی کہ ڈیوڈ وارنر جیسے آؤٹ آف فارم اور بکھرے ہوئے بلے باز بھی فارم میں آ گئے اور سینچری بنا گئے۔ پاکستان بولرز یہ کام اگر بھارت کے خلاف کریں گے تو سمجھیں کہ میچ ہار گئے۔ جیت کے لیے بولرز کو دباؤ برقرار رکھنا ہوگا۔

پاکستان شاداب خان کو ڈراپ کرنے کی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا جو مڈل اوورز میں ان کا ترپ کا پتا ہے۔ شاداب کی موجودگی سے بولنگ اٹیک میں ورائٹی بڑھتی ہے۔

اگر پاکستان کسی کھلاڑی کو ڈراپ کرنا چاہتا ہے تو وہ شعیب ملک ہو سکتے ہیں جو ابھی تک ٹیم پر بوجھ بنے نظر آتے ہیں۔ ان کی جگہ حارث سہیل کو شامل کیا جانا چاہیے۔ مڈل آرڈرمیں ایک بائیں ہاتھ سے کھیلنے والا بلے باز اہم ہو سکتا ہے۔

پاکستانی بلے بازوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پارٹنرشپ بہت اہم ہوتی ہے اور وقفے وقفے سے وکٹیں دیتے رہنے سے بڑا ہدف مقرر کرنے یا ہدف کا تعاقب کرنے کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔

بھارت کی وائی چاہل اور کلدیپ یادیو پر مشتمل سپنروں کی جوڑی جو ’چکو‘ کہلاتے ہیں بہت خطرناک ہیں۔ پاکستان کے بلے بازوں کو ان کو مہارت سے کھیلنا ہوگا، لیکن خراب گیند کا بھرپور فائدہ اٹھانا بھی ضروری ہے۔

آخر میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ بہتر کپتانی ہے۔ کپتان کو اٹیک کرنا چاہیے۔  فیلڈ پلیسنگ بہتر ہونا چاہیے اور سلپ میں آصف علی کو کسی طور پر کھڑا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ بڑی مہارت کا کام ہےاور آصف یقینی طور پر سلپ فیلڈر نہیں۔  

ایک بار پھر میں  زور دینا چاہوں گی کہ اگر پاکستان نے کیچ نہ پکڑے تو بھارت میچ لے اڑے گا اور پاکستانی اپنے زخم چاٹتے رہ جائیں گے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ