بڑوں کی گرفتاری کے بعد دو جانشینوں کی دوسری ملاقات

جاتی امرا میں بلاول اور مریم کی ملاقات لیکن شہباز شریف لاہور میں موجود ہونے کے باوجود شریک نہ ہوئے۔

(پی ایم ایل ن میڈیا سیل)

اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کی تیاریوں کے سلسلے میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن سیاسی منظر نامے پر بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کی ملاقات خاصی اہمیت کی حامل سمجھی جا رہی ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کی جانب سے افطار پارٹی کی میزبانی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی دعوت پر دوسری ملاقات آج اتوار کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہوئی۔

ملاقات میں دونوں جماعتوں کے اہم رہنما بھی شریک تھے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف لاہور میں موجود ہونے کے باوجود اس ملاقات میں شریک نہ ہوئے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت میں ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جس میں حکومت مخالف تحریک چلانے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی پر بھی غورکیا گیا۔

اس کے علاوہ حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک، عدلیہ بچائو تحریک، نیب کیسز، نیب گرفتاریاں اور بجٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا، جبکہ اے پی سی میں دونوں جماعتوں کے ایک بیانیے پر غوروخوض بھی ہوا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس اہم ملاقات میں ایاز صادق، رانا ثنا اللہ، پرویز رشید، زبیر عمر اور مریم اورنگزیب، جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے قمر الزماں کائرہ، حسن مرتضیٰ، مصطفیٰ نواز کھوکھر، چودھری منظور اوردیگر لیڈرز بھی شریک ہوئے۔

ملاقات میں کیا بات ہوئی؟

مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان یہ اہم ملاقات ہے۔ ’اس میں اپوزیشن کے متفقہ لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔ خاص طور پر اے پی سی جلد بلانے  پر غور کیا گیا۔‘

 انہوں نے بتایا کہ دونوں جماعتوں نے بجٹ کومسترد کیا۔ ’اس میں عام آدمی کے لیے کوئی ریلیف نہ ہونے کے باعث مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ معیشت پہلے ہی آئی سی یو میں چلی گئی ہے۔ وکیلوں سمیت ہر طبقہ انصاف اور حق مانگ رہا ہے۔‘

رانا ثنا اللہ کے مطابق، ملاقات میں اتفاق ہوا کہ اے پی سی کے فیصلوں کو دونوں جماعتیں دل سے قبول کریں گی کیونکہ یہ وقت سیاست نہیں بلکہ ملک بچانے کاہے۔ ’نااہل حکمرانوں نے پارلیمنٹ سمیت ہر ادارے کو مزاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ملک و قوم کو بحران سے نکالنے کے لیے دونوں جماعتوں نے بھر پور جدوجہد کو لازم قرار دیا۔‘

شہباز شریف غیر حاضر کیوں ؟

مریم نواز کی دعوت پر بلاول بھٹو زرداری پارٹی وفد کے ہمراہ جاتی امرا پہنچے لیکن شہباز شریف کی وہاں غیر حاضری پر کئی سوالات اٹھ گئے۔

اگرچہ مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں تمام فیصلوں کی اجازت میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے لینے کا دعویٰ کیا لیکن پھر بھی پنجابی گھرانوں کی روایات کے مطابق کسی دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے اہم سیاسی  مہمان کی آمد پر اس طرح ملاقات نہ کرنا سیاسی حلقوں میں چہ مگویوں کو جنم دے رہا ہے۔

ن لیگ کو قریب سے جاننے والے لاہور کے صحافی عثمان بھٹی نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کئی ماہ پہلے مریم نواز کو اپنا غیر اعلانیہ سیاسی جاں نشین بنا چکے ہیں۔ انکے بیانیے کی پاسداری بھی شریف خاندان سے مریم نواز اور انکے بھائی ہی کر رہے ہیں لیکن شہابز شریف اور حمزہ شہباز نے ابھی تک نواز شریف کے بیانیے، جو کہ نادیدہ قوتوں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف اور ووٹ کو عزت دو کا ہے، کو اپنانے سے گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

عثمان بھٹی نے بتایا کہ مریم نواز فرنٹ فٹ پر سیاسی چال چلتی ہیں اور عوامی مسائل پر دو ٹوک موقف اپناتی ہیں، اسی لیے کارکنوں میں بھی شہرت بڑھتی جارہی ہے۔ ’بلاول بھٹو کے افطار ڈنر اور ن لیگ کی یوم تکبیر کے حوالے سے تقریب میں بھی مریم نواز نے خود کو حمزہ شہباز کی نسبت بڑا ظاہر کیا، جبکہ احسن اقبال کے حلقہ ظفر وال میں بھی مریم نواز نے ہی جلسے سے خطاب کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو میاں نواز شریف کی حمایت حاصل ہونے کے باعث شہباز شریف اور حمزہ شہباز مجبوری میں ان کے ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ دونوں باپ بیٹے وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود کوئی موثر کردار ادا کرتے نظر نہیں آئے۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں جماعتیں شاید اس بات پر متفق ہیں کہ پرانے رہنماوں سے ماضی کی بیان بازی پر رنجشوں کو دور کرنے کے لیے نئی قیادت کو سامنے لا کر نیا سیاسی دور شروع کیا جائے۔

عثمان بھٹی کے مطابق شہباز شریف اگر لاہور میں موجود ہوں تو اپنی والدہ شمیم بیگم کو جاتی امرا اتوار کو ملنے جاتے ہیں لیکن اس بار بلاول بھٹو کی آمد کے باعث وہ والدہ سے ملاقات کے لیے بھی نہیں گئے۔

حکومتی اور اپوزیشن رہنماوں کی ملاقات پر لفظی جنگ

اپوزیشن کے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی ملاقات پر حکومتی رہنما خاموش رہیں یہ سیاسی طور پر ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ پہلے کی طرح اس ملاقات پر بھی صوبائی وزیر اطلاعات صمصام بخاری نے کہا کہ دونوں جماعتوں کی کرپٹ قیادت کو احتساب کے لیے پکڑا گیا اور اب ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ ’ان ملاقاتوں اور تحریکوں سے احتساب رکنے والا نہیں۔ ملکی دولت واپس کرنا ہوگی۔‘

سابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اس ملاقات میں کھانے کا سیاسی مینیو بتاتے ہوئے ٹوئٹر پیغام میں کہا ’بیگم صفدرنےاپنےکرپشن بولےبھائی بلاول زرداری کوگھرکھانےپر بلایا ہے۔۔مندرجہ ذیل کھانوں کا خصوصی اہتمام کیا ہے: ‏چکن کِک بیک مصالحہ۔۔مٹن منی لانڈرنگ ھانڈی۔۔ملائی کمیشن بوٹی۔۔اقرباء پروری کڑاہی!!! جبکہ سویٹ ڈِش ’فرنٹ مین گجریلا‘شہباز شریف کے فرنٹ مین مشتاق چینی سے تیار کروایا گیا ہے۔ ‘

اس بیان بازی کے جواب میں ن لیگی رہنما پرویز رشید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تو یہ دو رہنماوں کی ملاقات ہے اور حکومت گھبرا گئی ہے، جب کارکنوں کی قیادت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے تو کٹھ پتلیوں کی کیا حالت ہوگی؟

انہوں نے کہا حکومتی وزرا اپوزیشن کے خلاف بیان بازی سے اپنی نوکری پکی کرتے ہیں، انہیں جلد ہی اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی کے بعد اندازہ ہوجائے گا کہ اس حکومت سے پورا ملک تنگ ہے۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا حکمران اپوزیشن اتحاد سے بوکھلاگئے ہیں۔ میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا: ’بجٹ پیش کرنے کے بعد آدھی رات کو نیازی صاحب نے خطاب کیا اورانہیں سمجھ نہیں آرہی تھی بولنا کیا ہے۔ اسمبلی میں اپوزیشن کی بحث سے خوفزدہ ہیں، بجٹ بھی شاید رات کے اندھیرے میں پاس کرنا چاہتے ہیں۔ عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں حکومت مخالف تحریک میں اندازہ ہو جائے گا کہ لوگ بیانات سے نہیں کاموں سے مطمعن ہوتے ہیں۔‘

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظورنے کہا کہ اپوزیشن راہنماؤں کی ملاقاتوں سے بوکھلائی حکومت اب مکمل حواس باختہ ہوچکی ہے اور اپوزیشن کی ممکنہ احتجاجی تحریک کی وجہ سے حکومت گرفتاریاں بھی کررہی ہے۔

انہوں نے کہا اپوزیشن راہنماؤں کی ملاقاتیں حزب اختلاف کی سیاسی روایات کا ایک حصہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ کردار ادا کرنا چاہئیے۔ یہ حزب اختلاف کی سیاست کا حسن ہے کہ حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے۔

انکے مطابق ’امپائر کی انگلی پر ناچنے والے کٹھ پتلی ہی سولو فلائٹ کرسکتے ہیں۔ مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا حکومت مخالف کسی ایجنڈے پر اتفاق سیاسی روایت کا حصہ ہے۔‘

 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست