مظفرآباد: دھرنے پر بیٹھے ’دریا بچاؤ تحریک‘ کے 22 رہنما گرفتار

پولیس نے رات گئے چھاپہ مار کر کیمپ اکھاڑ دیا۔ گرفتاریوں کے خلاف مختلف تنظیموں نے شٹرڈاون ہڑتال کی کال دے دی۔

پولیس نےآزادی چوک کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ٹریفک رواں دواں ہے تاہم دھرنے کے مقام پر جمع ہونے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ( بشکریہ دریا بچاؤ تحریک/سوشل میڈیا)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں لگ بھگ تین ماہ سے جاری احتجاجی دھرنے پر رات گئے پولیس نے چھاپہ مار کر کیمپ اکھاڑ دیا اوربعد ازاں احتجاج کے لیے جمع ہونے والے کم از کم 22 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

’دریا بچاؤ تحریک‘ نامی سول سوسائٹی گروپ نے شہر سے گزرنے والے دریائے نیلم اور جہلم کا رخ موڑنے سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی اور انتظامی مسائل کے حل کے لیےسینٹرل پریس کلب کے قریب آزادی چوک میں تین ماہ سے دھرنا دے رکھا تھا۔ دھرنے کے منتظمین نے کئی بار دعویٰ کیا کہ دھرنہ ختم کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق گرفتاریوں کے خلاف مظفرآباد میں سول سوسائٹی، وکلا اور تاجر تنظیموں نے شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دے دی ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں دکانیں بند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات احتجاجی کیمپ میں موجود حسیب کاظمی نامی نوجوان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ رات دو بجے وہ اور ان کا ایک ساتھی دانیال معمول کے مطابق کیمپ میں سو رہے تھے جب باوردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس 25 کے لگ بھگ اہلکاروں نے کیمپ پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی۔ ’انہوں نے ہمیں گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا اور قریبی پولیس سٹیشن لے گئے۔‘

حسیب کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے ہمارے موبائل فون چھین لیے۔ خیمے اکھاڑ دیے، سامان ادھر ادھر پھینکا اورہمیں جوتے تک نہیں پہننے دیے۔‘

تاہم رات پولیس سٹیشن میں گزرنے کے بعد صبح کے وقت پولیس نے دونوں نوجوانوں  کو چھوڑ دیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق رات دو بجے سے ہی پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے مقام پرپہنچ گئی تھی اور صبح جب ’دریا بچاؤ تحریک‘ کے رہنماؤں نے دوبارہ جمع ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔

ڈپٹی کمشنر مظفرآباد بدر منیر نے 22 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے تاہم عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد زیادہ ہے۔  

بدر منیر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیر حراست لوگ شہر میں نافذ دفعہ 144 کی مسلسل خلاف ورزری کر رہے تھے۔ انتظامیہ نے ان سے کئی بار مذاکرات کیے تاکہ انہیں پر امن طور پر یہاں سے ہٹایا جا سکے تاہم یہ کوئی بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔

رات گئے کارروائی کے متعلق ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی تصادم سے بچنے کی انتظامی حکمت عملی کا حصہ تھی۔

پولیس ذرائع کے مطابق ابھی تک گرفتار افراد کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’دریا بچاؤ تحریک‘ نے دھرنا شروع کرنے سے قبل جو چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کیا تھا اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ واپڈا کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شروع کیے گئے بجلی کے منصوبوں پر مقامی حکومت کے ساتھ باقاعدہ معائدے کیے جائیں اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیرکے دوران ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ مشروط اجازت نامے پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔

2011 میں جاری اس مشروط اجازت نامے کے مطابق دریائے نیلم میں سردیوں کے موسم میں کم از کم 60 کیوسک پانی چھوڑنا ضروری ہے جبکہ گذشتہ موسم سرما میں اس پانی کی مقدار 20 کیوسک سے بھی کم رہی۔

 مشروط این او سی کے مطابق واپڈا مظفرآباد شہر میں 16 مقامات پر سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے علاوہ شہر کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے ری سائیکلنگ پلانٹ لگانے، دریا کی اطراف درخت لگانے اور شہر کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے مصنوعی جھیلوں کی تعمیر کے لیے مقامی حکومت کو مالی وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے۔ تاہم ابھی تک ان میں سے کسی منصوبے پر کام شروع کرنے کے لیے مالی وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔

اس کے علاوہ ایک بڑا مطالبہ ان دونوں منصوبوں میں مقامی بے روزگار نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دینے کا بھی ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے 969 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد شہر کے وسط سے بہنے والے دریائے نیلم میں پانی کا بہاو کم ہو گیا ہے۔ جبکہ 1100 میگاواٹ کے کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے لیے دریائے جہلم کا رخ موڑنے کا کام اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔

 واضح رہے کہ 1989 میں ابتدائی منظوری کے وقت نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کی کل لاگت کا تخمینہ 15.2 ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ 29 سال کے بعد یہ منصوبہ لگ بھگ 506.8 ارب کی لاگت سے مکمل ہوا۔ اس سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی میگاواٹ لاگت 52 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے جو کہ رائج الوقت لاگت کے بین الاقوامی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات