آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کون؟

2017 کے دھرنے کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والے جنرل فیض نے رواں سال میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید  (ٓآئی ایس پی آر)

پاکستان فوج میں اہم تبدیلیاں اور تقرریاں کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو کمانڈر گوجرانوالہ کور تعینات کر دیا گیا ہے۔ 

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عامر عباسی کو جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کور کمانڈر گوجرانوالہ تھے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز کو جی ایچ کیو میں انجینیئر اِن چیف تعینات کیا گیا ہے جو اس سے قبل کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے۔ 

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، جو وائس چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر کام کر رہے تھے کو جی ایچ کیو میں ایڈجوٹیننٹ جنرل تعینات کر دیا گیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کون ہیں؟   

آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام 2017 میں منظرعام  پر آیا تھا جب تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی دنوں تک دھرنا دیا۔ جنرل فیض اس دھرنے کو ختم کرانے میں اہم کردار ہونے کے باعث خبروں میں رہے۔

پانچ سے 26 نومبر 2017 تک جاری رہنے والا تحریک لبیک کا دھرنا انتخابی فارموں میں ایک ترمیم کی بنا پر دیا گیا تھا (جسے بعد میں حکومت نے واپس بھی لے لیا)۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوں۔

یہ 20 روزہ دھرنا حکومت کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات ماننے اور وزیر قانون کے استعفے کے بعد ختم ہوا۔ تحریک لبیک کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ شہباز شریف اور احسن اقبال سمیت کسی حکومتی شخصیت سے نہ مذاکرات ہوئے اور نہ معاہدہ بلکہ مذاکرات جنرل فیض سے ہوئے اور وہی ضامن بھی ہیں۔ مولانا خادم نے دعویٰ کیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر دھرنا ختم کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔

سپریم کورٹ میں کیس

جب اس دھرنے کا کیس سپریم کورٹ میں سنا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالانکہ وزرات دفاع نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں واضح کیا کہ سیاسی قیادت نے صورتحال پر کنٹرول میں ناکامی پر مسلح افواج کو مدد کے لیے بلایا تھا اس لیے فوج کو کردار ادا کرنا پڑا۔ جسٹس عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا: ’آئین پاک فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے۔ فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کرسکتی۔ وزارتِ دفاع، افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔‘

تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے معایدے میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام بھی شامل تھا۔

 

دفاعی امور کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس سے قبل بھی آئی ایس آئی میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور اُن کے کریڈٹ پر خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی کئی کامیاب کارروائیاں ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیراعظم جو بھی فیصلے کرتے ہیں ملک کی سکیورٹی کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ٹوئٹر پر کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کچھ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی چیلنجنگ ثابت ہوگی۔

جنرل فیض کی تعیناتی کا ملکی سیاست پر اثر؟

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ جنرل فیض حمید کی تعیناتی میرٹ پر اور سیاسی اثر سے بالاتر ہے۔

ان کے مطابق فیض آباد دھرنے میں جو کچھ ہوا اس میں حکومت کی جانب سے فوج کو خط لکھا گیا تھا کہ وہ معاملے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ’اس تعیناتی کے اثرات کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس سے جوڑنا نامناسب ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’یہ سچ ہے کہ اس تعیناتی سے ملکی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن صرف اُس سیاست پر جو ملک کے مفاد کو داؤ پر لگا رہی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی صرف آرمی چیف کی مرضی سے نہیں ہوتی بلکہ اس تعیناتی میں وزیراعظم کی مشاورت بھی شامل ہوتی ہے۔ 

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو رواں سال میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ اُن کا تعلق پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے ہے اور وہ 22 اپریل، 2023 میں ریٹائر ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان