آسیہ گل ارم کی زندگی برطانیہ میں تباہ کیسے ہوئی؟

48 سالہ آسیہ پر ہوم آفس کی جانب سے انگریزی زبان کے امتحان میں دھوکہ دہی کا الزام ہے جو انہوں نے تین برس قبل مکمل کیا تھا۔

آسیہ 2007 میں پاکستان سے مطالعاتی ویزے پر اپنے شوہر اور دو بیٹیوں، صبا جن کی عمر 26 سال اور شفا جن کی عمر 30 برس ہے، کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوئی تھیں۔

پاکستانی شہری آسیہ گُل ارم اور ان کی دو بیٹیاں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہے لیکن اب وہ کم و بیش ہی گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ گھر میں زیادہ کمرے ہونے کے باوجود وہ تینوں ایک ہی بیڈ روم میں سوتی ہیں۔ تعلیم یافتہ، پُرعزم اور روشن خیالات کی حامل یہ خواتین 2015 کے بعد سے خوف کی فضا میں سانس لے رہی ہیں۔ آسیہ کی ایک غلطی، جس سے وہ انکار کرتی ہیں، کے باعث انہیں ڈر ہے کہ انہیں تاریک زندگی کی جانب دوبارہ نہ دھکیل دیا جائے۔

48 سالہ آسیہ پر ہوم آفس کی جانب سے انگریزی زبان کے امتحان میں دھوکہ کرنے کا الزام ہے جو انہوں نے تین برس قبل مکمل کیا تھا۔

’جب مجھے وہ مراسلہ ملا اس کے بعد میری زندگی تھم گئی، میں نے دھوکہ دہی نہیں کی تھی، میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ مجھ پر کسی ایسے [جرم] کا الزام کیسے لگا سکتے ہیں جو میں نے کیا ہی نہیں؟‘

آسیہ 2007 میں پاکستان سے مطالعاتی ویزے پر اپنے شوہر اور دو بیٹیوں، صبا جن کی عمر 26 سال اور شفا جن کی عمر 30 برس ہے، کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوئی تھیں۔

آسیہ کے اپنے خاوند کے ساتھ تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ وہ جب پاکستان میں تھیں تب بھی انہوں نے دو بار فرار ہونے کی کوشش کی تھی کیوں کہ ان کے شوہر اور ان کے خاندان کے افراد صبا اور شفا کی شادیاں زبردستی ان سے عمر سے کافی بڑے رشتے داروں کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔

لیکن جب ان کے شوہر نے برطانیہ منتقلی کی ہامی بھری تو آسیہ کو امید پیدا ہوئی کہ اب سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔

آسیہ اور اس کے خاندان نے لندن کے علاقے ویسٹ ڈریٹن میں سکونیت اختیار کی جہاں سے وہ سنٹرل لندن میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی کلاسیں لینے آتی تھیں۔

صبا جن کی عمر برطانیہ آمد کے وقت 14 برس تھی، نے سکینڈری تعلیم کے لیے روزڈیل کالج میں داخلہ لے لیا جبکہ ان کی بڑی بہن شفا جن کی عمر اس وقت 18 سال تھی، ایک دکان پر اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگیں۔ ان کے شوہر کو بھی معروف سپرسٹور پر ملازمت مل گئی۔

یہ خاندان بظاہر خوشحال اور پرسکون زندگی گزار رہا تھا لیکن یہ عارضی ثابت ہوا۔

آسیہ کے مطابق ان کے شوہر کے پاکستان میں موجود رشتے دار اب بھی ان کی بیٹیوں کی وطن واپسی اور جبری شادیوں کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہے تھے۔

انہیں یہ سوچ پسند نہیں تھی مگر آسیہ یہ جانتی تھی کہ جب تک وہ برطانیہ میں مقیم ہیں انہیں اس بارے میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔

لیکن 2015 میں سب کچھ اس وقت بدل گیا جب آسیہ، جو اپنی اکاونٹس کی ڈگری تقریباً مکمل کرنے والی تھیں، کا نام ان ہزاروں غیرملکی طلبہ کی فہرست میں شامل کر لیا گیا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے انٹرنیشنل کمیونیکیشن کے لیے انگریزی زبان کے امتحان میں دھوکہ دہی کی ہے۔

برطانوی حکومت نے اس فہرست شامل ہزاروں افراد کو اپیل کا حق نہ دیتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ اب برطانیہ میں قیام کرنے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔

برطانیہ کے نیشنل آڈٹ آفس نے گذشتہ ماہ الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہوم آفس 2400 طلبہ کی ملک بدری کے دوران ان بے گناہ افراد کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے جن کو غلطی سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

محکمہ داخلہ پر دباؤ ہے کہ وہ ایسے افراد کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دوبارہ موقع فراہم کرے۔

اس فیصلے کو چیلنج نہ کر سکنے کے حق اور ملک میں اپیل کے حق کی عدم موجودگی کے باعث آسیہ ہزاروں افراد کی طرح مایوسی کا شکار ہو گئی ہیں۔

اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آسیہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت کے اس فیصلے سے ان کے شوہر کے ہاتھ سنہرا موقع آ گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواہش کے مطابق ان کی بیٹیوں کی جبری شادیاں پاکستان میں کرا سکیں۔

’میرے خاوند کہتے تھے، چلو تمہارا ویزا ختم ہو گیا، کیوں کہ تم نے دھوکہ دہی کی ہے۔ اب واپس وطن چلتے ہیں۔‘

’وہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان واپس جا رہے ہیں اور ہماری بیٹیاں اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ اب ان کی شادیاں کر دی جائیں۔ جب میں کہتی تھی کہ ہم واپس نہیں جا سکتے کیوں کہ ان کی زندگیاں تباہ ہو جائیں گی تو وہ مجھے اور میری بیٹیوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتے تھے۔ اس مار پیٹ کے بعد ہم نے پولیس کو کال کی تو وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ ہمیں اب بھی کوئی امید نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسیہ کو بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا شوہر واپس پاکستان لوٹ چکا ہے جہاں پہنچ کر اس نے ان پر بدکاری کے الزامات لگائے ہیں اس کے بعد آسیہ اور ان کی بیٹیوں کے پاس پناہ کی درخواست دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا۔ پیسے نہ ہونے کے باعث وہ وکیل کی سہولت سے محروم رہیں اور اس طرح ان کی پناہ کی درخواست مارچ 2017 میں مسترد ہو گئی۔ عدالت نے ہوم آفس کے دلائل تسلیم کر لیے جس میں کہا گیا تھا کہ آسیہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور ان کے پاس اتنے وسائل اور قابلیت ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی اور بچیوں کی کفالت خود کر سکتی ہیں۔

اس کے بعد ان کی انسانی حقوق کی بنیاد پر درخواست بھی جولائی 2018 میں مسترد کر دی گئی۔

اس کے ایک ماہ بعد صبا اور شفا کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا جب وہ ہوم آفس رپورٹ کرنے گئی تھیں۔

ان کی والدہ کو اطلاع دیے بغیرحراست کے دوران صبا اور شفا کو ہتھکریاں لگائی گئیں اور ان کو تفتیش کے بعد ریموول سنٹر بھیج دیا گیا۔

26 سالہ صبا نے پُرنم آنکھوں کے ساتھ وہ درد ناک لمحے یاد کرتے ہوئے بتایا: ’انہوں نے مجھے اور میری بہن کو ہتھکریاں لگائیں۔ میں اس وقت چیخنا چاہتی تھی۔ کسی ایسے شخص کو جس سے آپ پیار کرتے ہیں، ایسے حالات سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اچھا محسوس نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ہمیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ہم نے اس میں کیا چھپایا ہوا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ مجرموں کی طرح برتاؤ کر رہے تھے۔‘

بعد میں ان بہنوں کو ایک مراسلہ دیا گیا جس میں بیان کیا گیا کہ ان کو جلد ملک بدر کر دیا جائے گا اور اس کی ذمہ دار وہ خود ہیں۔

اس کے بعد صبا اور شفا کو امیگریشن ریموول سنٹر بھیج دیا گیا جہاں انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی پاکستان روانگی محض چند روز کی بات ہے۔

صبا کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے کہا کہ ہماری پرواز منگل کو پاکستان روانہ ہو گی۔ میرا اس وقت دل چاہا کہ دیوار سے اپنا سر پیٹ ڈالوں۔ میں صرف ان سوالات کے جواب چاہتی تھی جو انہوں نے ہمیں نہیں بتائے تھے۔ رات کے وقت میں نے خودکشی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔۔۔ یہ سب جہنم کی طرح تھا۔‘

دونوں بہنوں کو سات روز بعد رہا تو کر دیا گیا مگر ملک بدری کی تلوار ان کے سروں پر لٹکی ہوئی ہے جنہیں خوف ہے کہ انہیں کبھی بھی دوبارہ حراست میں لے کر زبردستی پاکستان روانہ کیا جا سکتا ہے۔

آسیہ کا کہنا ہے کہ ہر ماہ جب ان کو ہوم آفس رپورٹ کرنے جانا پڑتا ہے تو وہ خوف سے باقاعدہ کانپنے لگتی ہیں انہیں لگتا ہے کہ یہ آخری بار ہے اور اب ان کو حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا جائے گا۔

’ہم ٹھیک طور پر سو بھی نہیں پاتیں، رات کو راہداری میں کسی چیز کے گرنے کی آواز سے ہم خوف زدہ ہو کر چلانا شروع کر دیتی ہیں۔ جب ہمارے دروازے پر ڈاکیا دستک دیتا ہے تو ہم اسے ہوم آفس کے اہلکاروں کی آمد سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔‘

رکن پارلیمینٹ اور شیڈو چانسلر جان میک ڈونیل نے حال ہی میں امیگریشن کے وزیر کو دوسری بار خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے آسیہ کو دوبارہ انگلش ٹیسٹ دینے کا موقع فراہم کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو کلئیر کرا سکیں۔

لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے جان کا کہنا ہے کہ ان کے خطوط کا ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

’انٹرنیشنل کمیونیکیشن سکینڈل کے تناظر میں سالوں گزر جانے کے باوجود ان مقدمات کو حل نہیں کیا جا سکا جن کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔‘

آسیہ کے خاندان کو فلاحی تنظیم ’مائیگرینٹ وائس‘ کی مدد بھی حاصل ہے جو 2017 سے ایسے متاثرہ طلبہ کے حقوق کے لیے مہم چلا رہی ہے۔

تنظیم کے ڈائریکٹر نازیک رمضان کا کہنا ہے کہ ’آسیہ کی طرح بے شمار دیگر والدین اور صبا اور شفا جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جن کو ایک باعزت زندگی گزارنے کا موقع اور روشن مستقبل حکومتی الزامات کی وجہ سے تاریک ہو چکا ہے۔ یہ الزامات ناقابلِ بھروسہ ثبوتوں کی بنیاد پر عائد کیے گئے ہیں اور ان کو چیلنج کرنے کا حق بھی نہیں دیا گیا جو بنیادی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔‘

برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید جو خود بھی پاکستانی نژاد سیاست دان ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں اس مسئلے پر متاثرین سے ہمدردی ہے۔ وہ گذشتہ دو ماہ میں دو مرتبہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ اس مسٔلے پر حکومتی لائحہ عمل پر جلد بیان جاری کریں گے لیکن مہم چلانے والے اور متاثرہ افراد ابھی تک ان کے بیان کا انتظار کر رہے ہیں۔

جب دی انڈپینڈنٹ نے آسیہ اور اس کی بیٹیوں کے معاملے کے بارے میں ہوم آفس کے ترجمان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’تمام درخواستوں کو انفرادی طور پر میرٹ اور امیگریشن کے قوانین کی روشنی سے پرکھا جاتا ہے اور جیسا کہ اس معاملے میں قانونی عمل جاری ہے تو وہ اس پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘

مطالعے، کام اور کلیم کے فوائد سے محروم آسیہ اور اس کی بیٹیاں فی الحال مقامی دوستوں کی امداد پر گزر بسر کر رہی ہیں جو ان کے کرایہ، بلوں اور کھانے پینے میں مدد کر رہے ہیں۔ وہ کانپتی آواز اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کہتی ہیں کہ کیسے ایک الزام نے ان کی زندگی کو تبدیل کر دیا۔

’میں مناسب طریقے سے پڑھ رہی تھی، میں باقاعدگی سے کالج جا رہی تھی۔ میں نے پہلے سال کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ مجھے خود پر یقین تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود دھوکہ دہی کا لیبل واقعی نقصان دہ ہے۔ میں 2015 میں سوچ رہی تھی کہ بیچلر کی ڈگری ختم کرنے کے بعد میں ماسٹرز کروں گی اور پھر بینکنگ سیکٹر میں جانے کی امید کر رہی تھی لیکن میرے تمام خواب اس ایک جھوٹے الزام سے بکھر کر رہ گئے۔‘

’اس سے میری آزادی مکمل طور پر چھین لی گئی۔ میں ایک مضبوط عورت بننا چاہتی تھی جو اپنی بیٹیوں کی حمایت اور ان کی اپنے خاندان سے حفاظت کر سکتی، انہیں یہاں محفوظ رکھ سکتی۔ اور میں برطانیہ کی حکومت پر اعتماد کر رہی تھی کہ وہ ہم پر یقین کریں گے اور وہ مجھے خود کو ثابت کرنے کا منصفانہ موقع دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اب میں اپنی امید کھو رہی ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ