بھارت میں 100 بچوں کی ہلاکت: متاثرہ بچے شام کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں

ریاست بہار کے شہر مظفرپور میں اس اعصابی بیماری کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ لیچی کی کاشت کے دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔

ایک اعلیٰ صوبائی افسر الوک رانجھن کے مطابق رواں برس 97 بچوں کی ہلاکت ہوئی ہے جن میں زیادہ تعداد سات سال سے کم عمر بچوں کی ہے جبکہ 100 افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں (اے ایف پی)

سائنس دانوں کے مطابق حال ہی میں بھارت کے پسماندہ ترین علاقے میں 100 بچوں کی ہلاکت کی وجہ لیچی کا پھل ہو سکتا ہے۔ بھارتی ریاست بہار کے شہر مظفرپور میں ہونے والی یہ ہلاکتیں ایک ایسی اعصابی بیماری کے سبب ہوئی ہیں جو دماغ کے افعال کو متاثر کرتی ہے اور جسم میں شوگر کی سطح بہت کم ہو جاتی ہے۔

بھارت کے نیشنل ڈیزیز کنٹرول سینٹر کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بیماری کی مختلف وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مظفر پور کا نواحی اکثریتی علاقہ لیچی کی کاشت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس علاقے میں پائے جانے والے زہریلے جراثیم بھی اس بیماری کی ایک وجہ ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس بیماری سے متاثرہ بچوں نے بیمار ہونے سے ایک دن پہلے شام کا کھانا چھوڑ دیا تھا۔

یہ بیماری ہر سال اس علاقے میں حملہ آور ہوتی ہے لیکن حالیہ سالوں میں اموات کی تعداد 20 سے کم رہی ہے۔ ایک اعلیٰ صوبائی افسر الوک رانجھن کے مطابق رواں برس 97 بچوں کی ہلاکت ہوئی ہے جن میں زیادہ تعداد سات سال سے کم عمر بچوں کی ہے جبکہ 100 افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق یہ 2014 کے بعد سے ہونے والی اب تک کی سب سے زیادہ اموات ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ بیماری ’اکیوٹ انسفالائیٹس سنڈروم‘ یا  ’اے ای ایس‘ کہلاتی ہے جو بخار کے ساتھ چکر آنے اور جھٹکے لگنے کی صورت میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس سنڈروم کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں مچھروں سے وائرس کا پھیلاؤ، متاثرہ شخص کے جسم کو چھونے، بیکٹیریل انفیکشن، حشرات الارض اور زہریلے جراثیم شامل ہو سکتے ہیں۔

تاہم مظفرپور کے معاملے میں حکام ابھی تک اس بیماری کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔ بھارت میں باقی مقامات پر مچھروں سے پھیلنے والا وائرس ’جاپانی انسفالائیٹس‘ بھی اے ای ایس نامی بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔ لیکن ریاست بہار کی وزارت صحت کے پرنسپل سیکرٹری سنجے کمار کے مطابق مظفر پور میں سامنے آنے والے زیادہ تر کیسز میں اس وائرس کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے۔ سنجے کمار کے مطابق اس علاقے میں یہ بیماری 1995 سے پائی جاتی ہے اور  موسم گرما میں اس کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے جس کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں کے باعث کسی حد تک ہونے والی خنکی ہے۔ ان کے مطابق ہسپتالوں میں بچوں کو لایا جا رہا ہے جن میں شوگر کی سطح خطرناک حد تک کم ہے۔

شری کرشنا میڈیکل کالج کے سپرنٹنڈنٹ سنیل کمار شاہی کے مطابق ہسپتال میں لائے جانے والے تمام بچوں کی عمر 9 سال سے کم ہے۔

چلڈرن وارڈ کی جانب تقریباً بھاگتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’آپ میری ذہنی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں صورت حال بہت بری ہے۔ اُن والدین کا سوچیں جن کے بچے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔‘

تحقیق کے مطابق اس بیماری کی شدت میں اضافہ ٹھیک اُس وقت دیکھنے میں آیا ہے جب علاقے میں ایک ماہ کی مدت پر محیط لیچی کی کاشت کاری کا موسم بھی چل رہا ہے۔ اس بیماری سے متاثر ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے جو مفلس اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

 تحقیق کے مطابق یہ بیماری مختلف وجوہات کی بنیاد پر اثر کرتی ہیں۔ جیسے کہ کسی غریب گھرانے کے بچے نے شام میں زیادہ مقدار میں لیچی کھا لی ہو اور پھر شام کا کھانا نہیں کھایا۔ ہسپتالوں میں محدود سہولیات بھی صورتحال کو مزید تشویشناک بنا رہی ہے جس سے اموات میں اضافہ متوقع ہے۔

بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائی جانے والے فوٹیجز میں ہسپتال میں موجود بچوں کو بے سدھ پڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارتی وزیر صحت ہرش وردھن نے بھی اتوار کو مظفر پور کا دورہ کیا ہے جہاں ان کو ہلاک افراد کے رشتے داروں کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔

 ہرش وردھن کی جانب سے مقامی انتظامیہ کو متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان کی جانب سے اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ حکومت اس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اگست 2017 میں بھی بھارت کی ریاست اتر پردیش کے علاقے گورکھ پور میں انسفالائیٹس کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس کے بعد ہستپال میں آکسیجن کی فراہمی نہ ہونے کے باعث دو دن میں 30 بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت