مالی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ، 41 ہلاک

تقریبا سو نامعلوم مسلح افراد نے موٹر سائیکلوں پر یورو کے علاقے پر حملہ کرتے ہوئےآبادی پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔

حملے کے بعد ڈوگون قبیلے کا ایک منظر (رائٹر)

حالیہ مہینوں میں ڈوگون اور فولانی نسلی گروہوں کے درمیان تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ منگل کو ایک مقامی مئیر کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ مالی کے وسطی دیہات میں ہونے والے دو الگ حملوں میں موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے 41 افراد کی ہلاکت ہو ئی ہے۔

 اسیاکا گانامے نامی یورو کے مئیر کا کہنا تھا کہ تقریبا 100 نامعلوم افراد نے پیر کی شام ان کے گاوں پر حملہ کیا۔ اس کے بعد قریبی علاقے گنگافانی ٹو میں بھی ایک حملہ کیا گیا۔

گانامے کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد نسلی گروہ ڈوگون سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ ہلاک ہونے والے 24 افراد کا تعلق یورو جبکہ 17 کا تعلق گنگافانی ٹو سے ہے۔

گانامے کہتے ہیں : ’ تقریبا سو نامعلوم مسلح افراد نے موٹر سائیکلوں پر یورو کے علاقے پر حملہ کرتے ہوئےآبادی پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ جس کے بعد 15 کلو میٹر دور واقع ایک اور گاوں گنگافانی ٹو پر بھی ان کی جانب سے حملہ کیا گیا۔‘

ڈوگو اور فولانی قبائل کے درمیان حالیہ دنوں میں تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔9 جون کو حملہ کرنے والے افراد کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہے وہ فولانی قبیلے سے تعلق رکھتے  ہیں۔ اس حملے میں کم سے کم 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مارچ میں مبینہ طور پر ڈوگون قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد نے وسطی مالی میں فولانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے 150 افراد کو قتل کر ڈالا تھا۔ یہ مالی کی حالیہ تاریخ کا بدترین قتل عام تھا۔

قتل کی یہ تازہ وردات علاقے میں پہلے سے موجود خوف اور دہشت کی لہر میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اس علاقے میں نسلی گروہوں کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسند گروہ بھی فعال ہیں۔

صدر ابراہیم بوبکر کیتا کی حکومت کی جانب سے مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے لیکن انہیں ابھی تک اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ مقامی آبادی کی جانب سے حکام پر عدم اعتماد کے باعث حفاظت کے لیے مسلح گروہوں پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے۔

منگل کو دو مزدور یونینوں کی جانب سے حکام سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ حملوں کا مرکز موپاتی کے علاقے میں موجود تمام سرکاری کیمپوں کو خالی کر دیا جائے کیونکہ اس علاقے میں مسلح گروہوں کی دھمکیوں کے باعث ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔

نیشنل سینڈیکیٹ برائے سوال انتظامیہ کے سیکرٹری جنرل اسمانے کرسچین ڈیارا کہتے ہیں : صدر کیتا کے مطابق وہ مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے جا رہے تھے۔ ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے ان گروہوں کو غیر مسلح کیا جاتا ہے۔‘

سابقہ فرانسیسی نوآبادی مالی میں 2013 میں جہادی گروہوں کو روکنے کے لیے فرانس کی جانب سے بھی دخل اندازی کی گئی تھی۔ لیکن شدت پسند عناصر دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور ان کی جانب سے اس علاقے سے پورے خطے میں حملے کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے مختلف اقوام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’نامعلوم ‘موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے 41 افراد ہلاک۔

مالی میں’نامعلوم‘ افراد سرگرم۔

حالیہ مہینوں میں ڈوگون اور فولانی نسلی گروہوں کے درمیان تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

منگل کو ایک مقامی مئیر کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ مالی کے وسطی دیہات میں ہونے والے دو الگ حملوں میں موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے 41 افراد کی ہلاکت ہو ئی ہے۔

 اسیاکا گانامے نامی یورو کے مئیر کا کہنا تھا کہ تقریبا 100 نامعلوم افراد نے پیر کی شام ان کے گاوں پر حملہ کیا۔ اس کے بعد قریبی علاقے گنگافانی ٹو میں بھی ایک حملہ کیا گیا۔

گانامے کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد نسلی گروہ ڈوگون سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ ہلاک ہونے والے 24 افراد کا تعلق یورو جبکہ 17 کا تعلق گنگافانی ٹو سے ہے۔

گانامے کہتے ہیں : ’ تقریبا سو نامعلوم مسلح افراد نے موٹر سائیکلوں پر یورو کے علاقے پر حملہ کرتے ہوئےآبادی پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ جس کے بعد 15 کلو میٹر دور واقع ایک اور گاوں گنگافانی ٹو پر بھی ان کی جانب سے حملہ کیا گیا۔‘

ڈوگو اور فولانی قبائل کے درمیان حالیہ دنوں میں تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔9 جون کو حملہ کرنے والے افراد کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہے وہ فولانی قبیلے سے تعلق رکھتے  ہیں۔ اس حملے میں کم سے کم 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مارچ میں مبینہ طور پر ڈوگون قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد نے وسطی مالی میں فولانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے 150 افراد کو قتل کر ڈالا تھا۔ یہ مالی کی حالیہ تاریخ کا بدترین قتل عام تھا۔

قتل کی یہ تازہ وردات علاقے میں پہلے سے موجود خوف اور دہشت کی لہر میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اس علاقے میں نسلی گروہوں کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسند گروہ بھی فعال ہیں۔

صدر ابراہیم بوبکر کیتا کی حکومت کی جانب سے مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے لیکن انہیں ابھی تک اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ مقامی آبادی کی جانب سے حکام پر عدم اعتماد کے باعث حفاظت کے لیے مسلح گروہوں پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے۔

منگل کو دو مزدور یونینوں کی جانب سے حکام سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ حملوں کا مرکز موپاتی کے علاقے میں موجود تمام سرکاری کیمپوں کو خالی کر دیا جائے کیونکہ اس علاقے میں مسلح گروہوں کی دھمکیوں کے باعث ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔

نیشنل سینڈیکیٹ برائے سوال انتظامیہ کے سیکرٹری جنرل اسمانے کرسچین ڈیارا کہتے ہیں : صدر کیتا کے مطابق وہ مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے جا رہے تھے۔ ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے ان گروہوں کو غیر مسلح کیا جاتا ہے۔‘

سابقہ فرانسیسی نوآبادی مالی میں 2013 میں جہادی گروہوں کو روکنے کے لیے فرانس کی جانب سے بھی دخل اندازی کی گئی تھی۔ لیکن شدت پسند عناصر دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور ان کی جانب سے اس علاقے سے پورے خطے میں حملے کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے مختلف اقوام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ