پیپلزپارٹی: ’اے‘ ٹیم کی اننگز جاری، ’بی‘ ٹیم کی دوڑیں ہی دوڑیں

پیپلز پارٹی  ’اے‘ ٹیم کے کپتان زرداری صاحب انجرڈ ہیں مگر اب بھی کریز پر کھڑے اپنے بیٹ سے شاٹس کھیل رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کو بطور رنر دوڑائے رکھا ہے۔

آصف علی زرداری (اے ایف پی)

آخر زرداری صاحب ایسا کیا  کرتے ہیں جو ہمیشہ الزامات کی زد میں گھرے رہتے ہیں۔ فیصدیاں تو ان کی جان نہیں چھوڑتیں لیکن سیاست ہو تو زرداری، مفاہمت ہو تو زرداری، اور اگر  عدالت سے حوالات ہو تو بھی زرداری؟ دراصل ان سوالوں کے جواب جاننے کا شوق مجھے پچھلے ہفتے ہونے والی ایک ملاقات کے بعد ہوا۔

ہوا کچھ یوں کہ میں ایک ہائی لیول کے سابق جیالے سے ملی جن کے پاس سنانے کو یوں تو بہت سے قصے تھے مگر یہ قصہ ہے محترمہ بےنظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کا، جب وہ وزیراعظم تھیں اور ان کے شوہر آصف علی زرداری وزیراعظم ہاوس کے مکین، بی بی کی حکومت ابھی کھڑی ہی ہوئی تھی کہ اندرون خانہ کرپشن کا بازار گرم ہونے لگا۔ خاص نشانہ ملک کا پاور، آئل اینڈ گیس اور سب سے بڑھ کر بینکنگ سیکٹر تھا۔ اس کے اسباب دیگر بھی ہوسکتے ہیں مگر وہ صاحب بتانے لگے کہ ان کے ایک قریبی دوست  رفعت عسکری اکثر کہا کرتے تھے کہ ’پرائم منسٹر ہاوس میں دو ٹیمیں ہیں، پیپلزپارٹی کی ٹیم ’بی‘ طویل دورانیے کا ٹیسٹ میچ  کھیلنا چاہتی ہے، مگر ٹیم ’اے‘ ون ڈے کھیل رہی ہے۔ ہم تو بس کھلاڑی ہیں، جو ٹارگٹ ملے اسی کے مطابق سکور کرتے ہیں۔‘ شاید اسی وجہ سے رفعت عسکری کو ان کی مبینہ تیز سینچریوں کے باعث او جی ڈی سی ایل کا چئیرمین بنا دیا گیا۔ خیر یہ اور بات ہے بعد میں مرحوم رفعت عسکری کو این آر او کے تحت  کرپشن کے الزامات سے چھٹکارا مل گیا مگر ان کے کہے یہ الفاظ آج بھی پیپلز پارٹی کے اندرونی ماحول کو سمجھنے میں مددگار اور برمحل ہیں۔

تو جناب، یہ معاملہ تھا پیپلز پارٹی کی اے  اور بی ٹیم کا۔ پارٹی کے دل جلے جیالے کہتے ہیں کہ پارٹی کے دور حکومت میں ٹیم اے کے کپتان آصف علی زرداری کا سکور کارڈ تیزی سے بڑھ رہا تھا، مگر بی بی کی ٹیم بی اس شاندار کارکردگی پر الگ تھلگ اور خاموش رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میچ ہی ختم کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی سے اقتدار چھین لیا گیا۔ پارٹی کا دوسرا دور حکومت آیا تو ٹیم اے پہلے سے بھی زیادہ توانا ہوکر سامنے آئی، مجبوراً یا قصداً اب کی بار بھی ٹیم بی نے خاموشی پر اکتفا کیا۔  نتیجہ پھر وہی نکلا، میچ ڈس مس ہوا۔ سابق آمر پرویز مشرف نے 2007 میں این آر او دیا تو پیپلز پارٹی کی دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو خوب ریلیف ملا۔ اس سے پہلے کہ بےنظیر بھٹو کو تیسری بار اقتدار ملتا انہیں شہید کر دیا گیا۔ بی بی کے جانے سے پارٹی کی بی ٹیم بھی ختم ہوگئی۔

2008 کے عام انتخابات میں پارٹی کی صرف ’اے ٹیم‘ میدان میں اتری، کامیاب رہی۔ مرکز کے بعد سندھ پر چھائی رہی۔ اب یہ عالم ہے کہ پارٹی تو بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول کی ہے مگر فی الحال ان کی نیٹ پریکٹس اتنی نہیں کہ اپنی بی ٹیم بناسکیں۔ اگر کوئی ہے تو ’اے‘ ٹیم  ہے بلکہ یوں کہہ لیں ٹیم ’اے ٹو زی‘ ہے۔

اب ذرا چلتے ہیں پیپلز پارٹی کی ٹیم ’اے‘ پر لگنے والے الزامات کی جانب۔     سپریم کورٹ آف پاکستان میں پارٹی کی کرپشن کے حوالے سے چلنے والے کئی مقدمات، آرمرڈ پرسنل کیرئیر کیس، ڈاکٹر عاصم، ایان علی، شرجیل میمن، عذیر بلوچ کا معاملہ، سراج درانی، جعلی اکاونٹس کیس وغیرہ وغیرہ یہ سب  معاملے اچھی طرح سے کھنگال لیں۔ عدالتیں اور تفتیشی ادارے ہر کیس کی کڑی زرداری اور ان کی ٹیم سے جوڑ دیتے ہیں۔ ابھی تفتیش مکمل بھی نہیں ہوتی کہ زرداری صاحب کی جانب انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ جب کیس میں کچھ نہ سوجھے تو ملبہ زرداری صاحب کی اے ٹیم پر  ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زرداری صاحب پر الزامات لگانے والے اپنے ہی نہیں پرائے بھی رہے۔ پرائے تو پھر پرائے ہوتے ہیں کوئی گنجائش کہاں چھوڑتے ہیں۔ امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور سوئس اخبارات کے آرکائیوز،  کچھ غیر ملکی سرکاری  رپورٹس، سوئس اور امریکی بینکوں کی گواہیاں، امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ، سٹی بینک کے آفیشلز کے بیانات انہی الزامات پر مبنی ہیں۔ 1999 میں امریکی سینیٹ کی سب کمیٹی برائے تفتیش  نے ’پرائیوٹ بینکنگ اور منی لانڈرنگ‘ کے موضوع پر تحقیقات کیں۔ سٹی بینک کے آفیشلز کو بیانات اور ثبوت  دینے کے لیے بلایا گیا، ذرا سوچیں کہ سٹی بینک نے منی لانڈرنگ سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کس شخصیت کا ذکر کیا۔ جی ہاں آپ درست سمجھے یہ نادان امریکی ہمارے سابق صدر زرداری کا ذکر کر رہے تھے۔ تاہم  بھٹو زرداری سوئس اکاونٹس  کے حوالے سے  یہ تمام الزامات، امریکی سینیٹ کی تحقیقات اور امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کسی عدالتی عمل میں نہ لائی گئی نہ ثابت ہوسکی البتہ سوئس اکاونٹس کی گردان  زبان زد عام ضرور رہی۔

فرانس سے آگسٹا آبدوزیں خریدنےکا معاہدہ 1994 میں بےنظیر حکومت کے دوران طے پایا۔ اس معاہدے کے بطن سے کراچی گیٹ  کا کیس پیدا ہوا۔  الزامات تھے کک بیکس کے، پاکستان کو مہنگی فرانسیسی آبدوزوں کی فروخت اور 11 فرانسیسی انجینئرز کی ہلاکت کے۔ فرانسیسی ایجنسی نے تفتیش کی تو سامنے آیا کہ فرانس کے سابق وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے کک بیکس لیے تھے۔ شریر باز نہ آئے تو ایک فرانسیسی اخبار نے 2011 میں رپورٹ شائع کردی جس میں کہا گیا کہ زرداری صاحب نے آگسٹا آبدوز معاہدے  میں کک بیک کی مد میں کئی ملین یوروز وصول کیے۔ ادھر گھر کی بات تو یہ بھی ہے کہ اسی کک بیک کیس میں  پاک  بحریہ کے چند افسران کے نام نامی بھی  الزامات کی زد میں رہے۔ یہ معاملہ اب تک کنفوژن کی دھند میں لپٹا ہے تاہم ملزمان کسی بدعنوانی سے انکار کرتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے ’بد سے بدنام برا‘ شاید اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔

نیب  کے تو کیا کہنے مگر پہلے اسی نیب سے آصف علی زرداری کو کرپشن کے تقریباً  آدھے درجن کیسز میں باعزت بری کیا گیا ہے۔ اے آر وائی گولڈ کیس، ٹھیکوں میں کک بیک لینے کے ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیس، ارسز ٹریکٹرز کیس، پولو گراونڈ کیس۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کیسز میں زرداری صاحب کی لیگل ٹیم انہیں ٹرائل سے پہلے ہی نیب کے عتاب سے بچانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ عدالت نے یہ کہہ کر زرداری کو بری کر دیا تھا کہ نیب کے پاس ان مقدمات کے دستاویزی ثبوت اصل نہیں بلکہ بعض کی صرف فوٹو کاپی پیش کی گئی ہے۔ البتہ ابھی پچھلے ہی ماہ نیب ان کیسز کو دوبارہ کھولنے کی درخواست لے کر ہائی کورٹ پہنچی ہے۔ دیکھیں نیب کو اب کی بار ’فیض‘ ملتا ہے یا ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔

کک بیک، کرپشن، مہنگے ٹھیکے، عہدے کا غلط استعمال یہ سب تو وہ معاملات ہیں جن کے دستاویزی ثبوت شاید ہی کوئی کچا کھلاڑی رکھتا ہوگا، مگر بظاہر لگتا یوں ہے کہ زرداری صاحب کی اے ٹیم کے خلاف اب کی بار گواہان اور ثبوتوں کے پلندے بظاہر موجود ہیں۔ یہ ثبوت کسی کام کے ہیں بھی یا نہیں، یہ تو  کیس کے ٹرائل کے وقت ہی سامنے آئے گا مگر  سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی، اور اب تک سامنے آنے والی رپورٹس اومنی گروپ  کے تانے بانے زرداری صاحب کے ساتھ بنتی ہیں۔

بےنظیر بھٹو سے شادی کے بعد پاکستانی سیاست کی لائم لائٹ میں آنے والے زرداری صاحب لگ بھگ ساری زندگی کرپشن  الزامات کی زد میں رہے۔  قصہ مختصر یہ کہ ایک تحریر کم اور  احوال بہت ہے۔ پیپلز پارٹی ’اے‘ ٹیم کے کپتان زرداری صاحب انجرڈ ہیں مگر اب بھی کریز پر کھڑے اپنے بیٹ سے شاٹس کھیل رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کو بطور رنر یہاں وہاں دوڑائے رکھا ہے۔ خون پسینہ بیچاری ’بی‘ ٹیم کا بہا، مگر سکور اب بھی ٹیم ’اے‘ ہی بنا رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر