میٹھا بے نظیر بھٹو کی کمزوری تھی

بے نظیر بھٹو کو اپنی سالگرہ منانے کا بہت شوق تھا اور وہ ہمیشہ اسے کہیں باہر اپنے چند قریبی لوگوں کے ساتھ مناتی تھیں، وہ کیک کاٹتی اور لطف اندوز ہوتیں۔ انہیں اپنوں میں رہ کر خوشی حاصل ہوتی تھی۔

بے نظیر بھٹو کو اپنی سالگرہ منانے کا بہت شوق تھا(اے ایف پی)

یہ تحریر 21 جون 2019 کو شائع کی گئی تھی۔


بینظیر بھٹو آپ کو 66 ویں سالگرہ مبارک ہو۔ آپ کے جیالے کہتے ہیں کہ اگر آج آپ حیات ہوتیں تو 2019 مختلف ہوتا۔

پاکستان کی واحد خاتون وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو کو دنیا سے کوچ کیے بارہ برس ہونے کو ہیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد جیالوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا، جس کے بعد پی پی پی 2008 کے انتخابات میں فتح حاصل کر کے اقتدار میں تو آ گئی مگران کی جانشین قیادت پارٹی کارکنوں کو زیادہ عرصہ تک متحد نہ رکھ سکی۔

یہی وجہ ہے کہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو سوائے سندھ کے، قومی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں میں ناخوش گوار نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔

بےنظیر بھٹو کے بہت سے قریبی ساتھی جواب پارٹی سے قطع تعلق کر کے دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں وہ اب بھی بے نظیر بھٹو سے اسی شدت سے محبت  کرتے ہیں اور ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں۔

محترمہ کی پرسنل سکریٹری اور معتمد خاص ناہید خان کے خیال میں بی بی ایسی لیڈر تھیں کہ اگر آج وہ ہوتیں تو پاکستانی سیاست کو وہ نقصان نہ ہوتا جو اس وقت ہو رہا ہے۔

ناہید خان نے کچھ پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا بے نظیر بھٹو نے 1998 میں پاکستان سے باہر جانے سے قبل اپنی سالگرہ کراچی کے ایک ریستوراں ’کوکونٹ گروو ‘ ( جو اب بند ہو چکا ہے ) میں منائی، جہاں ان کے چند قریبی دوست، کچھ کزنز، میں اور میرے شوہر صفدر عباسی شریک ہوئے۔

بے نظیر بھٹو کو اپنی سالگرہ منانے کا بہت شوق تھا اور وہ ہمیشہ اسے کہیں باہر اپنے چند قریبی لوگوں کے ساتھ مناتی تھیں، وہ کیک کاٹتی اور لطف اندوز ہوتیں۔ انہیں اپنوں میں رہ کر خوشی حاصل ہوتی تھی۔

ناہید خان نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ، ان کی زندگی کے آخری لمحات کو بھی یاد کیا اور بتایا ’جب لیاقت باغ کا جلسہ ختم کر کے ہم گاڑی میں بیٹھے تو بی بی بہت خوش تھیں۔ انہوں نے مجھے مبارک باد دی۔ میرے شوہر صفدر عباسی بھی ساتھ تھے۔ وہ بولے بی بی آپ ناہید کو شاباش دے رہی ہیں اور مجھے نہیں، اس پر بی بی ہنس پڑیں اور بولیں آج کا سارا کریڈٹ ناہید کو جاتا ہے اور اس کے بعد انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور چوم لیا۔‘

’پھر وہ گاڑی کے سن روف  سے باہر نکلیں اور صفدر سے بولیں کہ زور دار نعرے ہونے چاہئیں۔ صفدر نے میگا فون پر نعرے لگانے شروع کر دیے جس کے بعد بی بی پر اٹیک ہوا اور جب انہیں گولی لگی تو وہ گاڑی کے اندر میری ہی گود میں آ کر گریں۔‘

ناہید کہتی ہیں کہ ان آخری لمحوں کی خوشی بھی ہے کہ بی بی خوش تھیں مگر اس کا دکھ  نہ ختم ہونے والا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی آخری سانسیں میری گود میں لیں اور میں انہیں ایسے دیکھوں گی یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

’بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی وہ پارٹی نہیں رہی ۔ ان کے دور میں آصف علی زرداری کا سیاست میں کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ ایک کاروباری آدمی تھے اور بی بی ڈیموکریٹک سوچ کی مالک تھیں۔ ان کے دور میں کارکنوں کی عزت ہوتی تھی مگر ان کے بعد کارکنوں کو ملازم سمجھا جانے لگا کہ ان کے ساتھ کچھ بھی سلوک کیا جاسکتا ہے۔‘

’میں آج بھی خود کو پیپلز پارٹی سمجھتی ہوں اور اسی کے جھنڈے کے ساتھ کھڑی ہوں۔ آج بھی بے نظیر اور ان کے نظریے کے ساتھ کھڑی ہوں اور اس کے لیے مجھے کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔‘

سابق سپیکر قومی اسمبلی اور موجودہ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا بھی پیپلز پارٹی چھوڑ کر نیشنل گرینڈ الائنس کا حصہ بن چکی ہیں۔

انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں انڈپینڈینٹ اردو کو کچھ یوں بیان کیں ’میں نے بی بی کے ساتھ بہت مشکل وقت دیکھے ہیں۔ وہ مجھ پر اعتماد کر کے بہت سی باتیں بتا دیا کرتی تھیں، یہاں تک کہ کچھ ذاتی باتیں بھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اپنے آخری دنوں میں وہ اکثر میرے پاس بیٹھ کر میرے کانوں میں سرگوشیاں کیا کرتی تھیں اور میں اکثر ان باتوں کے بارے میں سوچتی ہوں کہ اگر آج بی بی ہوتیں تو یہ پارلیمنٹ کیسی ہوتی؟‘

انہوں نے مزید کہا: خوشی میں سب ساتھ ہوتے ہیں مشکل وقت میں کوئی کوئی ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ہے، اب تو صرف ایک کمپنی بچی ہے۔

’بی بی کے لیے ان کے ورکرز اثاثہ تھے۔ ان کا ایک نظریہ تھا۔ ظاہری بات ہے جب وہ چلی گئیں تو بہت سے موقع پرست سامنے آگئے جنہوں نے صرف اپنا فائدہ دیکھا، کارکنوں اور عوام کا نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کے کاندھوں پر بڑا بوجھ ہے۔ انہیں اپنی والدہ کی طرح اپنا وژن رکھنا پڑے گا، جنہوں نے رشتوں کے بجائے کارکنوں کو اہمیت دی اور اپنا بہت کچھ قربان کیا۔ ’بلاول اپنی والدہ کے نقش قدم پر چل کر ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔‘

2013 کے انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر پاکستان مسلم لیگ ن میں  شمولیت اختیار کرنے والی پنجاب اسمبلی کی رکن عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا بے نظیر بھٹو کا جنم دن پاکستان کی تاریخ کا بڑا دن ہے۔ ان کے پائے کے لیڈر کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔

’وہ اسم بامسمیٰ تھیں۔ وہ شخصیت کی بے نظیر تھیں۔ ان کی قائدانہ صلاحیتیں بے نظیر تھیں اور وہ ایک بے نظیر خاتون بھی تھیں۔‘

عظمیٰ بخاری نے ایک واقعہ بھی سنایا۔ کہتی ہیں ’میں بہت دبلی پتلی تھی مگر بے نظیر بھٹو اکثر مجھے مذاق میں کہتیں کہ عظمیٰ تمہارا وزن بڑھ رہا ہے۔ ایک دن کھانا کھانے بیٹھے تو کھانے کے بعد بی بی جلیبیاں کھانے لگیں۔ میں سر جھکا کر ہنسنے لگی تو بی بی بھی مسکرا دیں کہنے لگیں: I know why are you laughing but I cannot resist sweets

بی بی کو میٹھا بہت پسند تھا۔ عظمیٰ کہتی ہیں کہ اگر آج بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ حال نہ ہوتا بلکہ مجھ جیسے ورکرز ان کے ساتھ ہی جدوجہد کر رہے ہوتے نہ کہ کسی دوسرے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا سوچتے۔ موجودہ لیڈر شپ کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ حال ہوا ہے کہ سب بڑے لوگ پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔

مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی سمیع اللہ خان بھی پیپلز پارٹی کے جیالے رہ چکے ہیں۔ ان کے خیال میں بے نظیر بھٹو جیسا عوامی لیڈر کوئی اور نہیں۔ وہ ہمیشہ نچلے طبقے اور کارکنوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ’ان کا جنم دن اور شہادت کا دن یقینا پاکستانی تاریخ میں بے انتہا اہمیت کے حامل ہے۔‘

سمیع اللہ خان نے بتایا: میں نے خود بی بی کو 20، 20 گھنٹے کام کرتے ہوئے دیکھا مگران کے چہرے پر تھکاوٹ کبھی نہیں دیکھی۔ وہ بڑے عہدے داروں سمیت چھوٹے عہدے داروں کو بھی بولنے کا بھرپور موقع دیتیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتیں۔

’ان کی شہادت کے بعد پارٹی قیادت نے سیاسی ورکرز کو بالخصوص پنجاب میں نظر انداز کیا اور پارٹی مقاصد کو نقصان پہنچایا گیا جس کی وجہ سے میں اور میرے جیسے کئی مخلص کارکنوں کو اپنی راہ جدا کرنی پڑی۔ اگر بی بی زندہ ہوتیں تو میں یقینی طور پر اپنی سیاسی جدوجہد انہیں کی زیر قیادت جاری رکھتا۔‘

پیپلز پارٹی کے ایسے ارکان جو اب حکومتی پارٹی کا حصہ ہیں انہوں نے متعدد بار رابطے کے باوجود بے نظیر بھٹو کے جنم دن پر ان کے حوالے سے بات کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست