امریکہ ۔ ایران جنگ سے پاکستان کا تیل نکل جائے گا

ایران اور امریکہ کے درمیان کسی بھی عسکری مہم جوئی سے پاکستان کو بھی سفارتی، معاشی اور معاشرتی مسائل درپیش آ سکتے ہیں مگر سب سے زیادہ بڑا مسئلہ پاکستان کی تیل کی ضروریات کو پیش آئے گا۔

(اے ایف پی)

ہفتے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر دنیا کو آگاہ کیا کہ ان کی حکومت نے ایران پر حملے کا حکم دے دیا تھا مگر حملے سے دس منٹ قبل انہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس طرح ایران اور امریکہ کے درمیان عسکری تنازع صرف دس منٹ کے فرق سے ٹل گیا۔

پاکستان کی ایران کے ساتھ سرحد 909 کلومیٹر طویل ہے۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق مالی سال18-2017 میں پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم 397 ملین ڈالر تھا جو کہ دو ممالک کے درمیان خاطر خواہ تجارتی حجم نہیں مگر عوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات ہیں۔ ایران میں پاکستانی سفیر رفعت مسعود کے مطابق پاکستان سے ہر سال تقریباً سات لاکھ زائرین مشہد میں امام رضا کے مزار پر حاضری کے لیے جاتے ہیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان کسی بھی عسکری مہم جوئی سے پاکستان کو بھی سفارتی، معاشی اور معاشرتی مسائل درپیش آ سکتے ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کو تیل کی ضروریات کے سلسلے میں پیش آئے گا۔

تیل کی قیمتیں اور ذخائر

جب خلیج عمان میں دو آئل ٹینکروں پر حملہ کیا گیا تو اس کے بعد ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں چار فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ امریکہ اور ایران کی حالیہ کشیدگی کے بعد تیل کی قیمتوں میں پانچ سے دس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان تنازع مزید بڑھا تو اس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔

انجینیئر ارشد عباسی کی رپورٹ’تیل اور گیس میں خود کفالت‘ کے مطابق پاکستان کی تیل کی ضروریات کا 85 فیصد درآمدات کے ذریعے پورا ہوتا ہے۔ سفارت کار جاوید حسین کے مطابق پاکستان کا بیشتر تیل خلیجی ممالک سے آتا ہے اور اس خطے میں کشیدگی سے پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسین کا بھی یہی خیال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہی مسائل کے پیش نظر بھارت نے اپنا جنگی جہاز خلیج عمان بھجوا دیا ہے تا کہ تجارتی سرگرمیوں کو در پیش کسی بھی خطرے سے نمٹا جا سکے۔

آبنائے ہرمز اور پاکستان

ایرانی کی جنوبی سرحدی حدود پر آبنائے ہرمز کا شمار دنیا کے اہم ترین آبی راستوں میں سے ہوتا ہے۔ آبنائے ہرمز ایران اور عمان کے بیچ 39 کلومیٹر طویل راستہ ہے جو خلیج عرب، خلیج عمان اور بحیرہ عرب کو ملاتا ہے۔ آبنائے ہرمز کی سب سے بڑی اہمیت اس کے ذریعے تیل کی تجارت ہے۔ مشرق وسطیٰ کی زیادہ تر تجارت بالخصوص تیل آبنائے ہرمز کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ امریکی ادارہ برائے توانائی معلومات کی انتظامیہ کے مطابق سال 2018 میں دنیا کے 21 فیصد تیل کی تجارت آبنائے ہرمز کے ذریعے ہوئی۔

امریکہ اور ایران جنگ کی صورت میں آبنائے ہرمز کے ذریعے تجارت شدید متاثر ہو گی، جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں متاثر ہوں گی۔ ایرانی جنرل بھی ماضی میں کسی جنگ کی صورت میں آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔

ایران نے دو دن پہلے ہی امریکی ڈرون بھی آبنائے ہرمز کی فضائی حدود میں ہی گرایا تھا۔

سفارت کار جاوید حسین کے مطابق پاکستان کی 95 سے 99 فیصد تیل درآمدات آبنائے ہرمز سے ہی ہو کر آتی ہیں اور کسی بھی تنازع سے پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کے مطابق ان مشکلات کی وجہ سے پاکستان کو تیل کو ذخیرہ کرنا پڑ سکتا ہے اور تیل کو  ترجیح کے لحاظ سے استعمال کرنا ہوگا۔

امریکہ ایران تنازع میں شدت کا کتنا امکان ہے؟

اور حکومتی و عوامی پالیسی کے پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا ماننا ہے کہ اس تنازع کے شدت اختیار کرنے کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ نے حملوں سے دس منٹ پہلے فیصلہ اس لیے واپس لیا کیونکہ ایران کی طرف امریکہ کو پیغام دیا گیا تھا کہ اگر حملہ ہوا تو ایران تنازع کو بڑھائے گا۔

صدر ٹرمپ کی اس وضاحت کے حوالے سے کہ انہوں نے 150 افراد کی ہلاکت کے پیش نظر فیصلہ واپس لیا، ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ یہ وضاحت اطمینان بخش نہیں ہے کیونکہ امریکہ کو ان ہلاکتوں کا پہلے سے پتہ تھا اور صدر ٹرمپ نے ان ہلاکتوں کو محض جواز بنایا۔

ممکنہ جنگ کی نوعیت پر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان زمینی جنگ ممکن نہیں، ہاں فضائی جنگ ہو سکتی اور دونوں طرف سے فضائی حملے اور میزائل داغے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کے پاس شہاب میزائل موجود ہیں جو امریکہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

دوسری جانب ایران میں پاکستان کے سابق سفیر جاوید حسین کا کہنا ہے کہ اس خطے میں کسی بھی ملک کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ امریکہ کا عسکری طور پر مقابلہ کر سکے مگر امریکہ کے لیے بھی ایران پر حملہ کرنا اتنا آسان نہیں۔

ڈرون گرانے اور آئل ٹینکر کے واقعات سے پہلے بھی ایران کے ساتھ تنازع سے سفارتی طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کی ایما پر جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے نے ایران کا دورہ کیا تھا اور معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تنازع نے شدت اختیار کی تو تیل اور معاشی مسائل کے علاوہ پاکستان کو معاشرتی و سفارتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

معاشرتی مسائل

ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران تنازع سے پاکستان کو معاشرتی سطح پر سب سے بڑا چیلنج در پیش ہوگا۔ ان کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں پاکستان سے اندرونی ردعمل بہت زیادہ اہم ہو گا کیونکہ پاکستان کی 22 فیصد آبادی شیعہ  مکتبہ فکر  سے تعلق رکھتی ہے اور وہ کافی منظم ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’ایران امریکہ جنگ سے پاکستان میں احتجاج ہو سکتا ہے اور یہ ایک مہم کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس سے نمٹنا پاکستان کے لیے مشکل ہو گا۔‘

سفارتی مسائل

ایران کے جنوب میں خلیج عرب کے ساتھ تمام سات کے سات ممالک میں امریکی افواج کی موجودگی یا ان ممالک کے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی سہولت موجود ہے۔ ان ممالک میں عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، سعودی عرب، کویت اور عراق شامل ہیں۔ امریکی ادارے امریکن سکیورٹی پراجیکٹ کے مطابق بحرین میں امریکہ کے ایف 16 طیارے موجود ہیں جبکہ قطر میں مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی امریکی بیس موجود ہے۔

ڈاکٹر رفعت حسین سے جب پوچھا گیا کہ ان اسلامی ممالک میں موجود امریکی اڈوں پر اگر ایران جوابی حملہ کرتا ہے تو پاکستان کے لیے کیا مسائل ہوں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ ایران کبھی ایسا نہیں چاہے گا مگر ایسی صورتحال میں پاکستان کے لیے شدید سفارتی مسائل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اس صورت میں پاکستان پر دباؤ ڈالے گا، لہذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی موجودہ پالیسی کو برقرار رکھے اور کسی تنازع میں مت پڑے۔

اس حوالے سے سفارت کار جاوید حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دنیا پر واضح کر دینا چاہیے کہ کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی جس سے ایران کے خلاف عسکری اقدامات ہوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ موجودہ حکومت میں تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور ان ممالک سے قرضے بھی ملے ہیں تو ان کا کہنا تھا 6 ارب یا 3 یا 2 ارب ڈالر کے لیے پاکستان کو اپنی قومی سلامتی اور قومی وقار نہیں کھونا چاہیے، پاکستان کو اپنے طویل مدتی مفاد کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان