’احترامِ عمران آرڈیننس ‘

نئے پاکستان کا مطلب یہ تو ہر گز نہیں کہ وزیر اعظم کے لیے لفظ بھی نئے استعمال کیے جائیں۔ جب منتخب وزیر اعظم کے لیے ہمیشہ سے الیکٹڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو پھر یہ سلیکٹڈ کا ذو معنی لفظ استعمال کرنا بھلا کیا معنی رکھتا ہے؟

‎جو کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا بہت تاخیر سے ہوا۔ المیہ یہی ہے کہ ہم قومی اہمیت کے فیصلے بھی وقت پر نہیں کرتے لیکن اگر ہم ہرکام وقت پر کرنے لگیں تو پھر ’دیر آید درست آید والا محاورہ کون استعمال کرے گا۔

سو ہم جمہوریت کے ساتھ ساتھ فی زمانہ شاید محاوروں کے بقا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ہمیں بہت اچھا لگا کہ اتوار کے روز ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ایک رولنگ دیتے ہوئے ایوان میں وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہنے پر پابندی عائد کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہر رکن ووٹ لے کر ہاﺅس میں آیا ہے لہٰذا آئندہ کوئی یہ لفظ استعمال نہ کرے۔

ہم ڈپٹی سپیکر کی اس رولنگ سے متفق ہیں اور اس کا بھرپور خیرمقدم بھی کرتے ہیں۔ منتخب وزیراعظم کا احترام ہم سب پر ضروری ہے۔ وزیراعظم عوام سے ووٹ لے کر برسراقتدارآئے ہیں، لہٰذا نہیں سلیکٹڈ کہہ کر طنز کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ہم گذشتہ چند روز سے بلاول بھٹو اور مریم نواز سمیت مختلف اپوزیشن لیڈروں کی زبان سے سلیکٹڈ وزیراعظم کی تکرار سن رہے تھے اور ہمیں اس لفظ کے استعمال پر حیرت بھی نہیں ہوئی تھی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے لفظ سلیکٹڈ کے منفی معنی سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کسی لفظ کے بہت سے معانی سوچنے بیٹھتے ہیں اور اگر کوئی آپ کو چڑانے کے لیے کوئی لفظ بارباراستعمال کرے تو اس کے وہ معنی بھی آپ کے ذہن میں آ جاتے ہیں جو بسا اوقات خود طنز کرنے والے کے ذہن میں بھی نہیں ہوتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے سلیکٹڈ کے معنی بھی منتخب ہی سمجھے تھے کیونکہ لغت میں بھی اس کا مطلب انتخاب ہی سامنے آتا ہے۔ اردو زبان کامسئلہ یہ ہے کہ بعض لفظوں کے معاملے میں یہ بھی آئین کی طرح خاموش ہو جاتی ہے۔ لفظ سلیکشن ہم نے ہمیشہ مختلف ملبوسات، رنگوں اور دیگر کمپنیوں کے اشتہاروں میں سنا اور پڑھا اور اس لفظ کو چناﺅ کے معنوں میں ہی استعمال ہوتے دیکھا۔ اس لیے اگر کسی نے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ بھی کہا تو ہمیں اس لیے حیرت نہ ہوئی کہ ہم اسے منتخب کا ہی متبادل لفظ سمجھتے تھے۔

آپ جانتے ہیں کہ انتخابات کو چناﺅ بھی تو کہا جاتا ہے کہ جس میں لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا چناﺅ کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم سلیکٹڈ لوگوں کو کسی محفل میں بلانے کی بات کرتے ہیں تو وہاں ہماری مراد چنیدہ افراد سے ہوتی ہے اور چنیدہ ہی شاید ہی ایسا لفط ہے جو حکومت کو پریشان کر رہا ہے اور اسی وجہ سے یہ بے ضرر سا لفظ قومی اسمبلی میں ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا۔

خیر کچھ بھی ہو ہم وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کہنے والوں کی سرکوبی کے حق میں ہیں ایسے مشکوک اور ملفوف الفاظ کے استعمال سے ہمارے وزیر اعظم کی عزت پر حرف آتا ہے۔ نئے پاکستان کا مطلب یہ تو ہر گز نہیں کہ وزیر اعظم کے لیے لفظ بھی نئے استعمال کیے جائیں۔ جب منتخب وزیر اعظم کے لیے ہمیشہ سے الیکٹڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو پھر یہ سلیکٹڈ کا ذو معنی لفظ استعمال کرنا بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔ ہم ابھی یہیں تک لکھ پائے تھے کہ ہماری ملاقات اپنے پرانے کرم فرما صوفی عبدالقدوس سے ہو گئی۔ صوفی صاحب زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور مشکل لمحوں میں ہماری مدد کو آتے ہیں۔

صوفی صاحب نے ہماری پریشانی کی وجہ دریافت کی تو ہم نے انہیں بتایا کہ ہم اب تک یہ نہیں جان سکے کہ حکمران آخر سلیکٹڈ کے لفظ پر کیوں معترض ہیں۔ ہم نے تو کئی لغات میں اس کا مطلب چھان لیا ہر طرف سے جواب ’منتخب‘ کی صورت میں ہی سامنے آ رہا ہے۔

صوفی صاحب ہماری کم علمی پر مسکرائے اور فرمایا  ’سلیکشن بھرتی کو بھی تو کہتے ہیں پیارے۔ اب اگر حکمران بھرتی کے لفظ پر بھی اعتراض نہ کریں تو بھلا ان کی جمہوریت کی دال کیسے گلے گئی۔‘ 

‎اس کے بعد صوفی صاحب نے مسکرا کر ہماری جانب دیکھا اور بولے، ’اس جھگڑے کا ایک ہی حل ہے، اور وہ یہ کہ حکومت اپنے منتخب وزیر اعظم کا احترام یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرے اور جیسے قومی اسمبلی میں لفظ سلیکٹڈ کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اسی طرح منتخب وزیر اعظم کا احترام یقینی بنانے کے لیے بھی ٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ موجودہ نازک صورت حال میں لوگوں کو وزیر اعظم کے احترام کا پابند کیا جا سکے اور سی پیک کے خلاف دشمنوں کی سازشیں یکسوئی کے ساتھ ناکام بنائی جا سکیں۔ ‘

‎ہم نے سوال کیا کہ قبلہ صوفی صاحب ہم نے تو سنا تھا کہ احترام دل سے کیا جاتا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں احترام آرڈیننس کے ذریعے کرایا جائے؟

صوفی صاحب نے جواب نظر انداز کرتے ہوئے اپنی گفتگو جاری رکھی اور بولے، ’مجھے معلوم ہے ابھی حکومت بجٹ منظور کرانے میں مصروف ہے اس لیے وزیر اعظم کے احترام کے لیے قانون سازی پر توجہ نہیں دے سکتی لیکن میرے بھائی، وزیر اعظم کا احترام بجٹ سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ اگر قانون سازی میں دشواری ہے تو سر دست آرڈیننس سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ صدر عارف علوی سے ایک عدد ’احترامِ عمران آرڈیننس‘ جاری کرا دیں، سارے مسائل ہی حل ہو جائیں گے۔ احترامِ عمران آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں بھی تجویز کی جا سکتی ہیں۔‘

صوفی صاحب نے تو بہت سی سزائیں بھی تجویز کر دی تھیں لیکن ہم نے ان کی ساری گفتگو کو مذاق ہی سمجھا۔ آپ بھی ہماری اس تحریر پر سنجیدگی سے غور نہ کیجیے ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ