’افغان کرکٹ کی جڑیں پاکستانی پناہ گزین کیمپوں میں‘

درختوں کی ٹہنیوں کو بلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے معمولی گیندوں اور وکٹوں کے بغیر گرد آلود کچے میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والے افغان بچے اور نوجوان اپنے ملک کی ٹیم کو اس مقام پر پہنچا چکے ہیں کہ اب افغان نیشنل کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس بھی حاصل ہے۔

24 جون کو بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے گئے میچ میں مخالف کھلاڑی کو آؤٹ کرنے کے بعد افغان کھلاڑی جشن مناتے ہوئے  (تصویر: بشکریہ  کرکٹ ورلڈ کپ)

24 جون کو کرکٹ ورلڈ کپ کے 31 ویں میچ میں بنگلہ دیش نے افغانستان کو باآسانی 62 رنز سے شکست دے دی۔ اس ورلڈ کپ میں کوئی بھی میچ نہ جیتنے والی افغانستان کرکٹ ٹیم اب تک سات میچ کھیل چکی ہے اور اس کے چند کھلاڑیوں کی کارکردگی کو شائقین کرکٹ کافی سراہ بھی رہے ہیں۔

آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019 میں دس ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ جن میں افغانستان کے علاوہ انگلینڈ، پاکستان، آسٹریلیا، سری لنکا، بھارت، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔  یہ دوسری مرتبہ ہے کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کسی ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی ہے۔ اس سے قبل افغان کرکٹ ٹیم نے 2015کے آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ میں حصہ لیا تھا۔

لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ افغانستان میں کرکٹ کی ابتداء پاکستان میں واقع پناہ گزین کیمپوں سے ہوئی۔ جہاں برطانیہ میں جاری حالیہ کرکٹ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی افغان ٹیم کے بیشتر کھلاڑی ٹیپ بال اور درختوں کی ٹہنیوں سے گرد آلود میدانوں میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔

موجودہ ورلڈ کپ کھیلنے والی افغان ٹیم کے بیشتر کھلاڑی اپنا بچپن پاکستان کے مختلف شہروں میں گزار چکے ہیں اور یہیں سے انہوں نے کرکٹ کو جانا اور سیکھا۔

افغانستان میں جنگ کے باعث لاکھوں افغان خاندانوں نے 80 کی دہائی میں پاکستان میں پناہ لی اور ملک کے مختلف شہروں میں قائم کیمپوں میں رہائش اختیار کی۔ پاکستان آنے یا یہاں پیدا ہونے والے افغان بچے انہی پناہ گزین کیمپوں میں کھیل کود کر پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔

افغان ٹیم کے اکثر کھلاڑی اپنے بچپن میں پشاور اور اس کے گردونواح میں واقع میدانوں، کھلے مقامات، پناہ گزین کیمپوں اور حتیٰ کہ گلی محلوں میں کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔ آج وہ جوان ہیں اور آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019 میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ورلڈ کپ کھیلنے والے افغان کھلاڑیوں میں سے بیشتر پشاور اور صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) کے کئی نجی کرکٹ کلبوں کے ساتھ بھی کھیل چکے ہیں۔

پشاور میں ملک انٹرنیشنل کرکٹ اکیڈمی کے منیجنگ ڈائریکٹر ملک فرمان علی کے مطابق: ’ان میں سے اکثر چھوٹے چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے اور رِنگ روڈ پر واقع ہمارے گراؤنڈ میں کھیلتے تھے۔‘

فرمان علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانستان ٹیم کے نور علی اور نجیب اللہ زدران اور سابق کپتان نوروز مینگل ان کے اُس وقت کے ملک سپورٹس کلب میں تربیت حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔

فرمان علی کو یاد ہے کہ افغان ٹیم کے کئی کھلاڑیوں نے ان کے (ملک سپورٹس)کلب کی طرف سے کئی میچ بھی کھیلے تھے۔

افغانستان میں کرکٹ کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ جنگ سے قبل وہاں فٹ بال اور نیٹ بال (والی بال) زیادہ کھیلی جاتی تھی۔

افغان نیشنل کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نوروز مینگل نے انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار ڈان کو بتایا:’ 1992 میں میری عمر دس سال تھی اور ہم پشاور کے قریب ایک کیمپ میں رہ رہے تھے۔ ایک رات بہت زیادہ فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ میں نے کسی سے پوچھا۔ تو معلوم ہوا کہ پاکستان نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے۔کرکٹ کا نام میں نے پہلی مرتبہ سنا تھا۔‘

نوروز مینگل بعد میں افغان کرکٹ بورڈ کے چیف سیلیکٹر بھی رہے۔

پشاور میں مقیم افغان باشندے تمیم کا کہنا ہے کہ 30 سال قبل دنیا افغانستان کو صرف جنگ کے حوالے سے جانتی تھی۔ ہمارے ملک میں کرکٹ کو کوئی نہیں پہچانتا تھا۔

تمیم کے مطابق: ’میں اور میرے جیسے ہزاروں افغان باشندے پاکستان میں جوان ہوئے ہیں اور ہم نے یہاں بہت کچھ سیکھا، جس میں کرکٹ بھی شامل ہے۔‘

سکول کے زمانے میں کرکٹ کھیلنے والے پشاور کے رہائشی محمد نیاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم کرکٹ کھیلنے وزیر باغ اور شاہی باغ جاتے تھے۔ وہاں کئی افغان لڑکے بھی ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلنے آیا کرتے تھے۔‘

22 جون کو بھارت اور افغانستان کے میچ کے بعد نا پوہا کے نام سے ایک ٹوئٹر صارف نے پیغام دیا: ’میں نے تقریباً 15 سال پہلے پشاور کے خیبر میڈیکل کالج کے گراؤنڈ پر کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی، جہاں پناہ گزین لڑکوں کی ایک معمولی سی پچ ہوا کرتی تھی۔ جو بعد میں بننے والی افغان نیشنل کرکٹ ٹیم کا ہیڈ کوارٹر تھی۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں: ’شیرپاؤ ہسپتال کی طرف وہ معمولی سی وکٹ ہی تھی جہاں یہ سب شروع ہوا اور حامد، دولت، نبی،شاہ پور اور اصغر جیسے لڑکوں نے صوبہ سرحد میں کرکٹ کھیلنا شروع کی۔میں تو بین الاقوامی کرکٹ تک نہ پہنچ سکا، لیکن یہ لڑکے پہنچ گئے۔ جس سے مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘

ناپوہا کی ٹویٹ پر رائے دیتے ہوئے ایک پاکستانی صارف نے لکھا: ’افغان ٹیم کے موجودہ وکٹ کیپر اکرام علی نے ہمارے ساتھ حیات آباد میں بڑی کرکٹ کھیلی ہے۔‘

افغان نیشنل کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رئیس احمد زئی نے امریکی ٹی وی سی این این کو بتایا: ’افغان کرکٹ میں غیر معمولی اضافے کی جڑیں پاکستان میں ان پناہ گزین کیمپوں میں موجود ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں: ’کرکٹ کی ایک دیوانی قوم نے یہ شوق دوسری قوم کو دیا۔‘

2010کے ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے والی افغان نیشنل کرکٹ ٹیم پر ڈاکومنٹری فلم بنانے والے برطانوی پروڈیوسر ٹِم آلبون نے سی این این کو بتایا: ’تمام پناہ گزین پشاور کے نواح میں واقع خراسان کیمپ میں (کرکٹ) کھیلا کرتے تھے۔‘

پشاور اور اس کے نواح میں بڑے ہونے اور کرکٹ کھیلنے والے ان ہی بچوں کے شوق، محنت اور جذبے کے باعث افغانستان میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہوا اور 1995میں افغانستان کرکٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا، جس کا 2001 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے اور 2003 میں ایشین کرکٹ کونسل سے الحاق ہوا۔ 2009میں افغان کرکٹ فیڈریشن کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعہ افغان کرکٹ بورڈ بنا دیا گیا۔

درختوں کی ٹہنیوں کو بلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے معمولی گیندوں اور وکٹوں کے بغیر گرد آلود کچے میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والے افغان بچے اور نوجوان اپنے ملک کی ٹیم کو اس مقام پر پہنچا چکے ہیں کہ اب افغان نیشنل کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس بھی حاصل ہے اور یہ ٹیم آئی سی سی ورلڈ کپ کے علاوہ ٹی 20 ورلڈ کپ بھی کھیل چکی ہے۔کئی افغان کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی پاکستان سے سیکھے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ