ٹیسلا کو ’پیچھے چھوڑنے‘ والی چینی کمپنی کے پاکستان آنے سے کیا فائدہ ہو گا؟

دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی چینی کمپنی بی وائے ڈی نے ایک پاکستانی کمپنی کے ساتھ اشتراک میں یہاں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے کا اعلان کیا ہے۔

18 اپریل 2023 کو شنگھائی میں 20ویں شنگھائی بین الاقوامی آٹوموبائل انڈسٹریل نمائش میں بی وائے ڈی گلوبل ڈیزائن سینٹر کے بیرونی ڈیزائن کے ڈپٹی ڈائریکٹر فان جیہان کمپنی کی نئی کاروں کی پیشکش کے دوران تقریر کر رہے ہیں (ہیکٹر ریٹامال/ اے ایف پی)

بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار میں معروف کمپنی ’ٹیسلا‘ کو بھی پیچھے چھوڑنے والی چینی کمپنی ’بِلڈ یوئر ڈریمز‘نے حال ہی میں مقامی پارٹنر میگا کانگلومریٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ساتھ پاکستان کی موٹر کاروں کی مارکیٹ میں آنے کا اعلان کیا ہے۔

اس اعلان پر انڈپینڈنٹ اردو نے الیکٹرک گاڑیوں کے پاکستان کی معشیت پر اثرات، مقامی آٹو انڈسٹری شدید بحران کی شکار ہے تو ایسے میں ان گاڑیوں کی کتنی کامیابی ہو سکتی ہے اور ان گاڑیوں کا طویل مدتی اثرات جاننے کے لیے انڈسٹریز کے معروف تجزیہ نگار مشہود علی خان سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔

مشہود علی خان پاکستان میں 1987 سے آٹوپارٹس بنانے والے کمپنی مہران کمرشل انٹرپرائز کے ڈائریکٹر ایکسپورٹ ہیں اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ انڈسٹری مینیوفیکچرر کے سابق چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ وہ وزارت کامرس اور منسٹری آف انٹیریر کی جانب سے 2016 سے 2021 کے درمیان آٹو موٹیو پالیسی بنانے والی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں۔

انڈپینڈٹ اردو سے گفتگو میں مشہود علی خان نے چینی کمپنی کی جانب سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں لانے کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

’ماضی میں دنیا میں الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیاں گاڑیوں کی مجموعی تعداد کی صرف ڈھائی سے تین فیصد تھیں، جو گذشتہ پانچ سالوں میں بڑھ کر 14 فیصد ہو گئی ہے۔ جو ایک مثبت بات ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ چین اس وقت الیکٹرک گاڑیاں بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے اگرچہ ان گاڑیوں کی پیداوار کا آغاز امریکہ سے ہوا تھام جس کے بعد یورپی ملکوں نے بھی اس میدان میں قدم رکھا۔

’چین بہت بعد میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے کی طرف آیا اور اس وقت چین پوری دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔

’چین کی الیکٹرک آٹو انڈسٹری نے گذشتہ چند سالوں میں الیکٹرک گاڑیوں میں جدت لانے، جدید پارٹس نصب کرنے اور مسافروں کے آرام کے لیے نئے فیچرز کے ساتھ کم قیمت میں گاڑیاں بنائی ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا: ’پاکستانی کمپنی کا چین کی نمبر ون کمپنی کے ساتھ اشتراک آئندہ پانچ سے 10 سال میں اس کی معشیت کے لیے مثبت قدم ثابت ہو گا۔‘

کیا پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کو چلانے کے لیے بنیادی انفراسٹکچر بشمول چارجنگ پوائنٹس موجود ہیں؟ کے جواب میں مشہود علی خان کا خیال تھا کہ پاکستان ابھی بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہے۔

’الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ بنیادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے لیے ہے۔ مگر چین اس مارکیٹ کو ترقی یافتہ ممالک سے ترقی پذیر ممالک میں لے گیا ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔

’ایشیا میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی بنانے کے وافر ذرائع موجود ہیں۔ اس لیے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ایشیائی ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی موروں ہو سکتی ہیں اور چین کے منصوبہ سازوں کے ذہن میں یہی خیال ہو گا۔‘

ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی بسوں کے استعمال کے امکانات بہت زیادہ ہیں، جب کہ دوسرے مرحلے میں الیکٹرک موٹرسائیکلز کے زیادہ چانسز ہیں اور تیسری ممکنہ مارکیٹ الیکٹرک موٹر کاروں کی ہوسکتی ہے۔

مشہود علی خان کا مزید کہنا تھا کہ جب ایک ملک کسی دوسرے ملک میں منصوبہ شروع کرتا ہے تو وہاں بنیادی انفراسٹکچر بھی بناتا ہے۔

’اگر الیکٹرک گاڑیاں آتی ہیں تو آپ کو سستے چارنگ پوانٹس بھی نظر آئیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے دریافت کیا گیا کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری بحران سے دو چار ہے تو ایسی صورت میں مہنگی گاڑیوں کو کیسے چلایا جائے گا؟ انہوں نے کہا یہاں ٹرک اور بسوں بنانے کی صنعتیں تقریباً دیوالیہ ہو چکی ہیں، جب کہ افراط زر کے باعث موٹر کاروں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اسلام آباد بیجنگ کے ساتھ مذاکرات کرے اور کم زرمبادلہ خرچ کر کے چین سے یہ ٹیکنالوجی یہاں درآمد ہو سکے۔ 

’چین کے لیے بھی پاکستانی مارکیٹ سود مند ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ چین الٹے ہاتھ کی ڈرائیونگ والی گاڑیاں بناتا ہے جب کہ پاکستان میں سیدھے ہاتھ والی گاڑیاں چلتی ہیں۔ منصوبہ بندی ایسی کی جائے کہ پاکستان میں رائیٹ ہینڈ ڈرائیونگ والی الیکٹرک گاڑیاں بنا کر ان ملکوں کو برآمد کی جائیں جہاں سیدھے ہاتھ کی ڈرائیونگ والی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔

مشہود علی خان نے مزید کہا کہ پاکستان کی معشیت ہمیشہ سے امپورٹ کی بنیاد پر چلائی گئی ہے اور اس پالیسی کے تحت کچھ سرمایہ کار فائدہ تو لیتے ہیں لیکن ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

’ماضی میں سوئڈش بسیں لائیں گئیں تھیں لیکن آٹو پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔‘

بقول مشہود علی خان: ’بی وائی ڈی جیسی بڑی کمپنیوں کو پاکستان کی مارکیٹ میں دیرپا کنٹرول کے لیے گاڑیوں کے پرزے پاکستان میں ہی بنانے پڑیں گے، جس سے یہاں صعنت کو فروغ ملے گا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان