عالمی اقتصادی فورم : پاکستان کی معاشی فالٹ لائنز کیا ہیں؟

عالمی اقتصادی فورم میں امکانات کا جتنا بھی بڑا جہاں کیوں نہ آباد ہو، ہم اس سے صرف اس صورت میں ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب معاشی سمت درست ہو اور لائحہ عمل واضح ہو۔

28 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں وزیراعظم پاکستان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے دوران ایک مباحثے میں شریک ہیں(اے پی پی)

عالمی اقتصادی فورم کا اجلاس جاری ہے۔ سوال یہ ہے وزیر اعظم پاکستان یہاں صرف اپنی ڈگمگاتی معیشت کا روایتی نوحہ پڑھیں گے یا ان کے پاس اپنی معاشی فالٹ لائنز کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کا کوئی بامعنی لائحہ عمل موجود ہے؟

بات تو رسوائی کی ہی ہے لیکن بات سچ ہے کہ عالمی اقتصادی محافل میں ہماری مناجات کا خلاصہ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ای بوٹا لائے گا۔

مدعا ایک ہی ہوتا ہے، البتہ مضامین ہم سو سو رنگ سے باندھ لیتے ہیں۔

اب کی بار مگر وقت کے موسم بدلے ہوئے ہیں۔ دوست ممالک نے بتا دیا ہے کہ اب راہ خدا میں کچھ نہیں ملنے والا، ہاں ہم سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔

غور طلب چیز یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں دوست ممالک کی سرمایہ کاری کے لیے کس حد تک تیار ہیں؟

عالمی اقتصادی فورم میں امکانات کا جتنا بھی بڑا جہاں کیوں نہ آباد ہو، ہم اس سے صرف اس صورت میں ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب معاشی سمت درست ہو اور لائحہ عمل واضح ہو۔

سوال یہ ہے کہ ہماری سمت کیا ہے اور لائحہ عمل کیا ہے؟

ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ ہماری معاشی فالٹ لائنز کیا ہیں۔ انہیں جانے اور ان سے نبٹے بغیر معاشی مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔

ہماری پہلی معاشی فالٹ لائن یہ ہے کہ ہم اپنے خطے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت نہیں بڑھا سکے۔

اس کی وجوہات پر دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ یہ معاشی فالٹ لائن بہت نمایاں ہے۔ انڈیا، ایران، افغانستان کسی سے بھی ہمارے مثالی معاشی تعلقات نہیں ہیں۔

ایران کے ساتھ باقاعدہ تجارت کا حجم پریشان کن حد تک کم ہے۔ گیس پائپ لائن کا مستقبل ابھی تک غیر واضح ہے۔

امریکی دباؤ اور اپنے قومی مفاد کے بیچ توازن کی لکیر ابھی تک نہیں کھینچی جا سکی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاملات ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔

انڈیا کے ساتھ تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ یہ ایک نازک اور یچیدہ معاملہ ہے۔ اس کی ذمہ داری یقینا پاکستان پر نہیں ڈالی جا سکتی تاہم مسئلہ تو موجود ہے۔

افغانستان کے ساتھ تجارت کی صورت حال بھی مثالی نہیں ہے۔ باقاعدہ تجارت کا حجم معمولی سا ہے اور اس میں بھی غیر یقینی کی کیفیت رہتی ہے۔

ایک چین ہے جس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن اس تجارت کا حجم بتاتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ ہے اور ہم صرف کنزیومر مارکیٹ بن کر رہ گئے ہیں۔

سی پیک گیم چینجر ہو سکتا تھا لیکن عشرہ ہونے کو آیا ہے اور ابھی تک معاملات پر سوالیہ نشانات کے سائے ہیں۔

جب تک کوئی ملک اپنے خطے میں پڑوسیوں کے ساتھ معاشی امکانات تلاش نہیں کرتا، اس کی معیشت کا سنبھل جانا اور پھلنا پھولنا ایک خواب ہی رہتا ہے۔

پڑوسیوں سے تجارت نہ ہونا ایک بہت بڑی فالٹ لائن ہے۔ یہ فالٹ لائن کیسے اور کیوں کر بھری جا سکتی ہے یہ سوچنا ان لوگوں کا کام ہے، جو ان امور کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔

انڈیا کے ساتھ فی الحال نہ سہی کم از کم دیگر پڑوسیوں کے ساتھ تو بامعنی تجارت ہونی چاہیے تھی۔ کیا وجہ ہے کہ ہر طرف معاملات دگر گوں ہیں؟

دوسری فالٹ لائن ہمارا حکومتی ڈھانچہ ہے۔ اس بیوروکریسی اور اس حکومتی ڈھانچے کے ہوتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی۔ ضابطوں کی پیچیدگیاں سرمایہ کار کو نچوڑ دیتی ہیں۔

ہمارے ہاں چونکہ مسئلے کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کی بجائے ایڈہاک متبادل تلااش کرنے کی روایت عام ہے اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کونسل بنائی گئی ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔

اگر نظام یہی ہے، بیوروکریسی کا رویہ یہی ہے، ضابطوں کی پیچیدگیاں یہی ہیں تو یہ کونسل کیا کر لے گی؟

 کونسل اعلی سطح پر تو معاملات نبٹا دے گی لیکن نچلی سطح پر کیا ہو گا؟ زمینی حقیقتوں سے کون نبٹے گا؟

یہ تصور بھی درست نہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل مسائل حل کر دینا کافی ہو گا۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کوئی ایسی چیز نہیں جو الگ سے ایک جزیرے کی صورت آباد ہو۔ یہ مقامی سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی چیز ہے اور یہ ایک مربوط عمل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی سرمایہ کار اگر بیوروکریسی کے خود ساختہ پیچیدہ بندوبست میں الجھے رہیں گے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی گہن لگے گا۔

جب تک بیوروکریسی سرمایہ کار کو ذمہ داری کی بجائے موقع اور امکان سمجھتی رہے گی معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن کسان کا حشر نشر کر دیا گیا ہے۔

وجہ؟ سب کو معلوم ہے۔

تیسری فالٹ لائن ہماری سماجی نفسیاتی گرہ ہے۔ ہم سرمایہ کار سے نفرت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے۔

ہمارے شاعر فرد جرم مرتب کرتے ہیں تو لکھتے ہیں

گوہر، سہگل، آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا

یعنی کوئی کاروباری گھرانہ اگر برلا اور ٹاٹا بن جائے تو یہ ایک واجب التعزیر حرکت ہے۔

فالٹ لائنز کی یہ فہرست طویل ہے۔ کالم کی تنگنائے میں تذکیر کے طور پر چند کا ذکر کر دیا ہے تاکہ یہ بات سمجھی جا سکے کہ معاشی اصلاح حوال کا عمل داخل سے شروع ہو گا تو کہیں جا کر خارج کی شراکت بھی مفید ہو سکے گی۔

اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ