کراچی طیارہ حادثے کے چار سال: اصل میں ہوا کیا تھا؟

آج سے ٹھیک چار سال قبل 22 مئی 2020 کو کراچی میں پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کے حادثے میں 98 اموات ہوئی تھیں۔ اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔

آج سے ٹھیک چار سال قبل 22 مئی 2020 کو کراچی میں پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کے حادثے میں جہاز میں سوار 97 افراد جان سے گئے، جب کہ زمین پر ایک خاتون جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، تاہم جہاز میں سوار دو مسافر معجزانہ طریقے سے بچ گئے۔

جہاز کا سفر کار یا ریل کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ ہوتا ہے، کیوں کہ جہاز میں جتنے چیکس اور بیلنس اور سخت قواعد و ضوابط ہوتے ہیں وہ کسی اور طریقۂ سفر میں نہیں لاگو کیے جاتے۔ جہاز کو اسی وقت حادثہ پیش آتا ہے جب ایک سے زیادہ چیزیں بیک وقت خراب ہو جائیں یا پھر قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کی جائیں۔

اس حادثے کی جو رپورٹ جاری کی گئی اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ جہاز کے عملے نے فلائنگ کے اصولوں اور قواعد کی ایک نہیں بلکہ متعدد بنیادی خلاف ورزیاں کیں جن کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔

ہم اس حادثے کے رپورٹ میں درج کردہ وہ اہم واقعات پیش کر رہے ہیں جن کی بنا پر طیارہ اپنے المناک انجام تک پہنچا:

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی پرواز PK8303 کے حادثے کی حتمی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نو بج کر 32 منٹ تین سیکنڈ پر کراچی اپروچ نے طیارے کے کپتان اور فرسٹ آفیسر کو کال کی، ’سر اگر آپ چاہیں تو دوبارہ چکر لگا سکتے ہیں۔‘

 جس پر طیارے نے جواب دیا، ’نہیں سر ہم آرام سے ہیں اور ہم اتر سکتے ہیں انشا اللہ۔‘

یہاں تک بات سمجھ میں آتی ہے مگر اس کے بعد جو بات طیارے کے کپتان نے کی جسے طیارے کے کاک پٹ نے ریکارڈ کیا وہ نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ دل دہلا دینے والی ہے۔ کپتان نے کہا کہ ’وہ (یعنی ایئر ٹریفک کنٹرول) حیران رہ جائے گا کہ ہم نے کیا کر دیا ہے۔‘

یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ پی آئی اے کی تباہی اور بربادی کے دریا کو ایک کوزے میں بند کرنے والی لائن ہے جس میں بظاہر کپتان اپنی دانست میں بڑھک مارتے ہوئے فرسٹ آفیسر سے کہتا ہے کہ جب ہم اتنی بلندی سے اتنی تیزی سے طیارہ نیچے لا کر لینڈنگ کر لیں گے تو اپروچ کنٹرولر جو اب ہمیں بھاشن دے رہا ہے وہ حیران رہ جائے گا کہ ہم نے یہ کیا چمتکار کر دکھایا ہے۔

پی آئی اے کا یہ طیارہ 22 مئی 2020 کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے سے چند میٹر دور آبادی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

یہ رپورٹ حادثے کو ایک سال مکمل ہونے پر بنائی گئی تھی۔

اس حادثے پر ایئرکرافٹ انوسٹی گیشن بورڈ آف پاکستان یعنی اے اے آئی بی کی حتمی رپورٹ کے مطابق پرواز کرنے کے تقریباّ 14 منٹ بعد عملے کے ایک رکن نے کپتان اور فرسٹ آفیسر سے کھانے یعنی سنیکس کے بارے میں پوچھا جسے دونوں نے منع کر دیا۔

جس کی بنیاد پر رپورٹ میں سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے لیے سفارش کی گئی ہے وہ عملے کے لیے دوران پرواز کھانے اور پینے کے دورانیے کی مانیٹرنگ اور کپتان اور فرسٹ آفیسرز کے روزے رکھنے کے بارے میں اپنے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائے۔

سب سے اہم بات جو اس رپورٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ طیارے میں کسی بھی قسم کی تکنیکی یا فنی خرابی نہیں تھی اور طیارے کے گرنے کی وجہ طیارہ نہیں بلکہ طیارے کو اڑانے والا عملہ اور دوسرے انسانی عوامل تھے۔ بلکہ اس رپورٹ کے نتیجے میں طیارے کی فنی اور تکنیکی صلاحیت سامنے آتی ہے جس نے اسے آخری لمحے تک انتہائی بدترین حالات میں بھی اڑائے رکھا۔

اب آتے ہیں طیارے کے حادثے کے چھ حصوں پر۔

پہلا مرحلہ

طیارہ علی الصبح آٹھ بج کر پانچ منٹ 30 سیکنڈ پر لاہور سے پرواز کر کے کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ جبکہ آٹھ بج کر 24 منٹ 24 سیکنڈ پر طیارے کو کراچی ایریا کنٹرول کے حوالے کیا گیا۔ (نوٹ: اس رپورٹ میں تمام اوقات یو ٹی سی کے حساب سے دیے گئے ہیں جو کوآرڈینیٹڈ یونیورسل ٹائم کہلاتا ہے۔ اس کے وقت اور پاکستان کے معیاری وقت میں پانچ  گھنٹوں کا فرق ہے)

دوسرا مرحلہ

 اس دوسرے فیز میں دو بڑے مسائل سامنے آتے ہیں۔ ایک طیارے کی رفتار اور مطلوبہ بلندی سے اوپر ہونا۔ دوسرا طیارے کے پائلٹس کا غلط فریکوئینسی سیٹ کرنا جس کی بنیاد پر رابطے میں مسائل پیش آئے۔

اس فیز میں کراچی کے ایریا کنٹرولر سے پہلا رابطہ استوار کرنے کے بعد طیارے کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے تک رسائی کا راستہ فراہم کیا گیا جو کہ کراچی سمیت ملک کے جنوبی حصے کے تمام علاقے کی ایئر سپیس کو کنٹرول کرتا ہے۔

سوا نو بجے پر طیارے کے عملے نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے اترنے کی اجازت طلب کی جو اسے دے دی گئی۔ جس کے بعد طیارے کے اترنے کا عمل شروع کیا گیا جسے ڈیسنٹ کہتے ہیں۔

اس کے بعد طیارے اور اپروچ کنٹرولر اور ایریا کنٹرولر کے درمیان متعدد بار رابطہ ہوا جس میں کنٹرولرز پائلٹس کو باور کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ طیارہ مطلوبہ بلندی سے بہت اوپر ہے اور آسانی سے نیچے نہیں اتر سکتا جبکہ پائلٹ کنٹرولرز کو یہ باور کرواتے رہے کہ ایسا نہیں ہے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے اور وہ طیارے کو آسانی سے نیچے اتار لیں گے۔

اتارنے کی کوشش میں پائلٹوں نے طیارے کو بہت تیزے سے نیچے لانا شروع کیا جس کی رفتار ایک موقعے پر ایک ہزار فٹ فی منٹ تھی پھر ایک موقعے پر یہ دگنی سے زیادہ ہو کر 24 سو فٹ فی منٹ ہو گئی۔ یعنی طیارہ ہر منٹ میں 24 سو فٹ نیچے کی طرف آ رہا تھا۔

اس موقعے پر کراچی کے ایریا کنٹرول نے طیارے کو کال کی اور کہا کہ ’پی کے 8303 کراچی کے اپروچ کنٹرول سے رابطہ کریں 125.5 فریکوینسی پر۔‘ اس کال کا طیارے کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد ایریا کنٹرول نے تین بار طیارے کے عملے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’فلائٹ کے عملے نے شاید اپروچ کنٹرول کراچی ریڈیو فریکوئنسی کو غلط سمجھا اور اے ٹی سی کی کئی کالز کا جواب نہیں دیا گیا۔‘

سادہ الفاظ میں طیارے نے اپنی فریکوئنسی ہی درست سیٹ نہیں کی تھی جو بجائے خود بہت بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ ایریا کنٹرولر کے بعد اپروچ کنٹرولر نے بھی رابطہ کیا مگر جواب نہیں ملا جس کے بعد اپروچ کنٹرولر نے گارڈ فریکوئینسی پر رابطہ کیا جو کہ تمام طیاروں کی دسترس میں ہوتی ہے۔

بالآخر طیارے کی جانب سے تیسری بار کال پر جواب دیا کہ ’تصدیق ہے فریکوئنسی 126.5 پر تبدیلی کی۔‘ اس کے بعد طیارے اور کراچی اپروچ کے درمیان رابطہ استوار ہوا۔

اس موقعے پر اپروچ کنٹرولر نے طیارے کے عملے سے پوچھا کہ ’تصدیق کریں آپ کا اترنے کا ٹریک آرام دہ ہے؟‘ یعنی آپ اس سطح سے بآسانی اتر سکیں گے اور اس پوزیشن میں ہوں گے بآاسانی اتر سکیں؟
طیارے کے عملے نے تصدیق کی۔ دوسرے الفاظ میں طیارے سے کہا جا رہا ہے کہ آپ بہت اوپر ہیں تو کیا آپ ایک چکر لگا کر بلندی بآسانی کم کر سکیں گے۔

اس لمحے طیارہ نو ہزار فٹ کی بلندی پر تھا اور رن وے سے 15 ناٹیکل میل یعنی اندازاً 28 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مگر اسی لمحے اچانک سے طیارے کے کاک پٹ وائس ریکارڈر میں کپتان کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ’یہ کیا ہوا؟ روکو، روکو، اوہ نو! طیارے کو ہولڈ سے نکالو، ہولڈ سے نکالو، ہولڈ سے نکالو، ہولڈ سے نکالو۔‘

اس پر فرسٹ آفیسر نے جواب دیا، ’ہولڈ نکال دیا ہے، کیا ہمیں اس واقعے کو رپورٹ کرنا چاہیے؟‘

جس پر کپتان نے جواب دیا ’نو یہ ہولڈ کی وجہ سے ہو سکتا ہے، کراچی اپروچ کو بتاؤ کہ ہم لوکلائزر پر قائم ہو چکے ہیں۔‘

اب یہ ان مسائل کا آغاز ہے جن کا دروازہ کپتان نے اپنی ہٹ دھرمی، غیر پیشہ ورانہ رویے اور اپنے آپ کو نہ صرف ہوابازی بلکہ ایئرلائن اور سول ایوی ایشن کے مروجہ قوانین سے بالاتر سمجھتے ہوئے کھولا۔

کپتان چونکہ اس قسم کے طرزِ عمل کا عادی تھا اور اسے معلوم تھا کہ اس کی اس قسم کی حرکتوں پر نہ ایئرلائن نہ سول ایوی ایشن کچھ کرے گی اس لیے اس نے ایک بار پھر اپنی ہٹ دھرمی اور ضد میں اپنے آپ کو ایک ایسے گھن چکر میں ڈال دیا جس کے نتیجے میں آدھے گھنٹے سے کم وقت میں طیارہ کریش کر گیا۔

جب ہم کپتان کے طرزِ عمل کے بارے میں مندرجہ بالا نکات لکھتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ حقائق ہیں کہ کپتان کو پاکستان سول ایوی ایشن کریش سے پہلے ایک سال کے عرصے میں ’فلائٹ ڈیوٹی کی خلاف ورزی، یعنی پرواز اڑانے کے اوقات کار سے تجاوز کرنے پر شو کاز نوٹس جاری کیا تھا۔‘

دوسرا جب کپتان نے ایئرلائن میں شمولیت اختیار کی تو اس وقت کے نفسیاتی جائزے میں ماہرِ نفسیات نے یہ نوٹ کیا تھا کہ کپتان ’افسری ذہنیت، غالب آنے والا، ہٹ دھرم اور اپنی رائے مسلط کرنے والی ذہنیت کا مالک تھا۔ان کے اندر حکامِ بالا کے فیصلوں کی پروا نہ کرنے کا رجحان تھا، ان میں مکینیکل / سپیس کے آپس میں تعلق کی سمجھ بوجھ کم تھی اور ان کے اندر دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت ناکافی تھی۔‘

نو بج کر 32 منٹ تین سیکنڈ پر کراچی اپروچ نے طیارے کو کال کی ’سر اگر آپ چاہیں تو چکر لگا سکتے ہیں‘ جس پر طیارے نے جواب دیا ’نہیں سر ہم آرام سے ہیں اور ہم اتر سکتے ہیں انشا اللہ۔‘

اس کے کچھ دیر کے بعد کپتان کا یہ جملہ ریکارڈ ہوا کہ ’ہولڈ پھنس گیا یہ آٹومیٹیکل بنا ہوا (بلٹ اِن ہے)، میں بھول گیا تھا۔‘ پھر کپتان اپنی دانست میں بڑھک مارتا ہے اور بڑا بول بولتا ہے کہ ’وہ حیران رہ جائے گا کہ ہم نے کیا کر دیا ہے۔‘

یعنی کپتان فرسٹ آفیسر سے کہتا ہے کہ جب ہم اتنی بلندی سے اتنی تیزی سے طیارہ نیچے لا کر لینڈنگ کر لیں گے تو اپروچ کنٹرولر جو ہمیں ’بھاشن‘ دے رہا ہے وہ حیران رہ جائے گا کہ ہم نے یہ کیا چمتکار کر دکھایا ہے۔

ایک سیکنڈ بعد ہی کراچی اپروچ نے دوبارہ کوشش کی کہ وہ طیارے کے کپتان اور فرسٹ آفیسر کو حقیقت سے آگاہ کر سکیں اور سمجھا سکیں کہ ’پاکستان 8303 بائیں مڑنے کی ہدایت کو نظر انداز کریں 180 درجے کی جانب مڑیں‘ جس پر پھر جواب دیا گیا کہ ’ہم آرام سے ہیں اب اور ہم اب 35 سو فٹ سے نکل کر تین ہزار فٹ کی جانب ہیں اور انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم پر رن وے 25 ایل پر قائم ہو چکے ہیں۔‘

یہ بات درست نہیں تھی۔ طیارہ اب بھی مطلوبہ بلندی سے اوپر تھا اور رن وے سے فاصلہ مزید کم ہو چکا تھا۔ اور اس کا اندازہ کپتان کی جانب سے طیارے کو خطرناک حد تک نیچے لانے کی کوششوں سے ہو سکتا ہے کیوں کہ اس لمحے طیارے کی بلندی سے اترنے کی رفتار تین ہزار فٹ فی منٹ تھی۔ یعنی کہاں ایک ہزار فٹ سے 24 سو فٹ اور اب تین ہزار فٹ۔

اس کام کو کرنے کے لیے طیارے کا اگلا حصہ یعنی اس کی ناک تیزی سے نیچے اتارنے کے لیے بہت جھکا دی گئی تھی۔ یہ ایسا کاؤبوائے طرزِ ہوابازی تھا کہ طیارے کے آٹو پائلٹ نے بھی ہاتھ جوڑ کر کپتان سے معافی مانگی ہو گی کیوں کہ اس لمحے وہ بند ہو گیا اور چھ سیکنڈ بعد طیارے کی ٹارگٹ سپیڈ مطلوبہ رفتار سے بہت زیادہ تھی۔

کراچی اپروچ نے ایک بار پھر طیارے سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’نیگیٹو، بائیں جانب مڑو 180 درجے پر۔‘

طیارے کا جواب وہی تھا ’سر ہم انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم پر رن وے 25 ایل پر قائم ہو چکے ہیں۔‘

طیارے کے آٹو پائلٹ کے بند ہونے کے بعد طیارے میں وارننگز کا ایک سلسلہ شروع ہوا، بلکہ طوفان شروع ہوا جس نے کپتان اور فرسٹ آفیسر کو ایک tunnel vision میں دھکیل دے دیا جہاں ان کی سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت محدود ہوتی گئی۔

ان وارننگز میں تیز ترین رفتار کی وارننگ سے لے کر ماسٹر وارننگ تک شروع ہو گئی اور طیارہ تیزی سے نیچے آنا شروع ہوا کہ زمین سے قریب ہونے کی وارننگ بھی جاری ہو گئی جبکہ طیارہ اب بھی مطلوبہ بلندی سے کافی اوپر تھا جبکہ اترنے کی رفتار سات ہزار چار سو فٹ فی منٹ تک پہنچ گئی تھی۔

اس سارے عمل کے دوران طیارہ ہر لمحے کم از کم چار ہزار فٹ مطلوبہ بلندی سے اوپر رہا تھا جو کہ کسی بھی کپتان کے اور کسی بھی عام عقل و فہم والے انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کپتان نہ صرف طیارے کو بلکہ اس میں موجود مسافروں کو کتنی بڑی مشکل میں ڈال رہا تھا اور ایسا پہلی بار نہیں تھا کیوں کہ پی آئی اے کے ریکارڈز کے مطابق کپتان نے ’گذشتہ 12 ماہ کی فلائٹ ہسٹری میں کئی غیر مستحکم اپروچز تھیں۔ جنہیں نہ صرف روکا اور درست نہیں کیا گیا بلکہ ’ان کا سلسلہ جاری رہا اور آپریٹر(پی آئی اے) نے غیر موثر ایس ایم ایس (سیفٹی مینیجمنٹ سسٹم) اور ایف ڈی اے (فلائٹ ڈیٹا مینیجمنٹ) پروگرام کے نفاذ میں خامیوں کی وجہ سے اس کی موثر نگرانی کو یقینی نہیں بنایا۔‘

سادہ زبان میں یہ کہ کپتان سجاد گل طیارے کے حادثے سے ایک سال قبل کئی بار مسلسل غیر مستحکم طریقے سے پروازیں اتارتے رہے اور اڑاتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ پی آئی اے، اس کا فلائٹ آپریشن اور ایئرلائن مروجہ قوانین اور قواعد و ضوابط کی موجودگی کے باوجود نہ صرف نظرانداز کرتے رہے بلکہ اس طرزِ عمل کو ارادتاً یا غیر ارادتاً مستحکم کرتے رہے۔

نو بج کر 32 منٹ 52 سیکنڈ پر پہلی بار طیارے میں زمین سے قریب ہونے کی وارننگ جاری کی گئی، ایسا اس پرواز کے دوران تین بار ہوا اور ساتھ ہی طیارے نے بآواز بلند پائلٹس کو خبردار کرنا شروع کیا کہ طیارہ اوپر اٹھاؤ Pull up لیکن طیارے کے کاک پٹ میں اس وقت اتنا طوفان آیا ہوا تھا کہ یہ وارننگ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔

لیکن اس کے بعد کپتان نے پہلی مہلک غلطی کی جس کے نتیجے میں طیارے کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا تھا اور وہ فیصلہ تھا طیارے کے لینڈنگ گیئر کو اوپر اٹھانے کا فیصلہ اور تین سیکنڈ بعد سپیڈ بریکس بھی retract کر لیے گئے۔ اسی لمحے یعنی نو بج کر 58 منٹ پر کراچی اپروچ کنٹرولر نے طیارے کو رن وے 25L پر اترنے کی حتمی اجازت دی۔

تیسرا مرحلہ

اس مرحلے میں طیارے کے لینڈنگ گیئر اوپر کیے جانے سے لے کر طیارے کے رن وے سے رگڑ کھانے، ٹکرانے تک کا مرحلہ ہے جس میں پہنچنے والے نقصان نے طیارے کی قسمت کا فیصلہ کیا۔

اتنے قیامت خیز لمحات سے گزرنے کے بعد طیارے کے فرسٹ آفیسر نے اس سارے مرحلے میں کی جانے والی واحد مثبت بات کی جو کہ ایک سوال تھا۔

نو بج کر 33 منٹ 33 سیکنڈ پر فرسٹ آفیسر کو سنا جا سکتا ہے جب وہ کپتان سے پوچھتے ہیں کہ ’کیا ہمیں چکر لگا لینا چاہیے؟‘ مطلب کہ ہم اتنی مشکل میں پڑ کر یہ لینڈنگ کرنے کی مشکل میں پڑے ہیں اور مزید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، لینڈنگ گیئر بھی اوپر ہے تو کیا ہمیں لینڈنگ کا یہ والا مرحلہ ترک کر کے رن وے کے گرد ایک اور چکر لگا دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو کہ بالکل جائز بات تھی اور جو تجویز ایک سے زیادہ بار ٹریفک کنٹرولر دے چکا تھا۔

لیکن اس مرحلے پر بھی جب طیارے کے کاک پٹ میں وارننگز کا بازار گرم ہے کپتان نے ایک نہیں دو بار کہا ’نو، نو‘ اور ساتھ ہی کہا ’چھوڑ دو‘ اور پھر کپتان نے طیارے کے کنٹرولز فرسٹ آفیسر سے لے لیے۔

اسی لمحے یعنی چند سیکنڈ بعد طیارے کے لینڈنگ گیئر نیچے نہ ہونے کی وارننگ جاری ہو گئی جو کہ لینڈنگ گیئر کے لیور کے نیچے ایک سرخ تیر کے نشان کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

طیارے کے کاک پٹ میں آوازیں ریکارڈ کرنے والے آلے نے اس دوران 13 وارننگز ریکارڈ کیں۔ یہ وہ وارننگز ہیں جو آواز کی صورت میں تھیں دوسری اس کے علاوہ ہیں۔ ان میں 10 ’بہت نیچے، ٹیرین‘ وارننگ تھی یعنی طیارے زمین کے بہت قریب ہے کی وارننگ۔ دو پل اپ یعنی طیارے کو اوپر اٹھانے کی وارننگز جن کا مطلب عملے کو یہ بتانا کہ طیارہ کو اڑایا جائے۔

چوتھا مرحلہ

یہ مرحلہ طیارے کے رن وے سے رگڑ کھانے یا ٹکرانے سے لے کر دوبارہ اڑان کا ہے۔

نو بج کر 34 منٹ 28 سیکنڈ پر طیارے کے کاک پٹ ریکارڈنگ نظام میں زمین سے ٹکرانے کی پہلی آواز ریکارڈ ہوئی ہے۔ یہ رن وے پر چار ہزار 500 فٹ کے فاصلے پر ہوئی، یعنی رن وے کے شروع ہونے سے لے کر چار ہزار 500 فٹ کے فاصلے پر طیارہ پہلی بار زمین پر لگا جب اس کے لینڈنگ گیئر باہر نہیں تھے۔

اگلے 18 سیکنڈ تک طیارہ رن وے سے چار بار رابطے میں آیا۔ جس کے نتیجے میں رن وے پر رگڑ کے نشانات نمودار ہوئے۔

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ طیارے کا انجن نمبر دو انجن نمبر ایک کی نسبت زیادہ دیر تک رن وے سے رابطے میں رہا۔ یعنی انجن نمبر دو کل ملا کر 583 فٹ تک رن وے سے رگڑ کھاتا رہا جبکہ انجن نمبر ایک کا دورانیہ 2194 فٹ تھا۔ یعنی انجن نمبر دو چار گنا زیادہ رن وے سے رگڑ کھایا اور اس عمل کے نتیجے میں زیادہ بری حالت میں نکلا۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ طیارے کا انجن نمبر دو اس دوران میں تباہ ہو گیا ہو کیوں کہ اس میں آگ کی وارننگ جاری ہوئی اور اس مرحلے کے بعد انجن نمبر ایک تمام تر پرواز کو پاور کرتا رہا۔ لیکن اس رگڑ کے نتیجے میں انجن سے تیل لیک کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وارننگ طیارے کے کاک پٹ میں بھی ملی۔

نو بج کر 34 منٹ 42 سیکنڈ پر فرسٹ آفیسر نے کپتان کو جو کہ طیارہ اس وقت کنٹرول کر رہا تھا کہا ”ٹیک آف کریں سر، ٹیک آف۔‘ یعنی انہوں نے کپتان کو طیارے کو اڑان بھرنے کا کہا جس کے بعد طیارے نے اڑان بھری اور یہ اس سارے خوفناک مرحلے میں دوسری خوفناک غلطی تھی۔

بہت سے پائلٹس اور فرسٹ آفیسرز کا خیال ہے کہ کپتان کو اس مرحلے پر طیارے کو اس کے حال پر چھوڑ کر رن وے پر رگڑ کھانے دینا چاہیے تھا تاکہ وہ بیلی لینڈنگ کرتا اور زیادہ سے زیادہ رن وے گزر کر کچے پر اتر جاتا یا شاید ایئرپورٹ کی حد کی دیوار میں جا لگتا مگر اس صورت میں انجام مختلف ہو سکتا تھا۔

اس دوران طیارے کے دونوں پائلٹس نے مخالف سائیڈ سٹک ان پٹ دیں۔ یعنی مخالف ردِ عمل دیا۔ انجن نمبر ایک کی رفتار بڑھ کر 94 فیصد ہو گئی جبکہ انجن نمبر دو کی کم ہو کر 16 فیصد رہ گئی جس کے نتیجے میں انجن کا سٹیٹس سٹارٹ پر چلا گیا اور لینڈنگ گیئر نیچے نہ ہونے کی وارننگ اس مرحلے پر بند ہو گئی۔

پانچواں مرحلہ

اس مرحلے میں طیارہ رن وے پر رگڑ کھانے کے بعد اڑان بھرتا ہے جبکہ اس کا انجن نمبر ایک بری طرح متاثر ہو چکا تھا اور طیارہ کے انجن سے گڑگڑاہٹ پیدا ہو رہی تھی۔ طیارے کو اس مرحلے پر کپتان سجاد گل اڑا رہے تھے اور سائیڈ سٹک پر دونوں کی جانب سے مخالف طرزِ عمل بند ہو گیا تھا۔ طیارے کا انجن نمبر ایک 94 فیصد پر چل رہا تھا جبکہ انجن نمبر دو سٹارٹ کے مرحلے میں تھا۔

اس مرحلے پر کراچی ٹاور نے کراچی اپروچ کو لینڈ لائن پر کال کر کے طیارے کے ساتھ بیتی روداد سنائی کہ طیارے نے رن وے پر بغیر لینڈنگ گیئر کے رگڑ کھائی ہے۔ اپروچ نے پوچھا کہ اب صورت حال کیا ہے تو جوب ملا کہ طیارے اس لمحے رن وے کے آخری حصے کے اوپر پرواز کر رہا ہے۔

اس مرحلے پر طیارے کے انجن اپنی پوری قوت کے ساتھ ایک جنگ کی حالت میں تھے اور اس کے نتیجے میں شدید گڑگڑاہٹ پیدا ہو رہی تھی ساتھ ہی مزید وارننگز ملیں مگر طیارہ ایک بار پھر اڑان بھر کر محوِ پرواز تھا۔

اس لمحے پر کپتان نے ایک اور سنگین غلطی کی مگر چلد ہی اس سے ریکور کیا اور یہی غلطی دوبارہ کرنے پر طیارہ آسمان سے نیچے گر گیا۔

کپتان نے پہلے لینڈنگ گیئر ڈاؤن کیا مگر جلد ہی اسے اپ کر لیا مگر طیارے کے سسٹم میں اپ اور ڈاؤن ہونے کا مرحلہ نہیں ریکارڈ جس کا طلب ہے کہ جتنی جلدی یہ عمل کر کے واپس لیا گیا تھا اس کے نتیجے میں لینڈنگ گیئر نہیں کھلے ورنہ شاید طیارہ وہیں گر جاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپتان جس گڑھے میں گر چکا تھا اس سے نکلنے کے ہر کوشش بغیر پراسیس اور پروسیجر کے کر رہا تھا اور نکلنے کی بجائے مزید اس میں گرتا جا رہا تھا۔

کپتان نے نو بج کر 35 منٹ پر کراچی اپروچ کو بتایا کہ ’گوئنگ اراؤنڈ‘ یعنی میں دوبارہ چکر لگانے جا رہا ہوں۔

یہ وہی کپتان سجاد گل تھے جنہوں نے چند لمحے قبل بڑھک ماری تھی کہ ’وہ (ایئر ٹریفک کنٹرولر) حیران رہ جائے گا کہ ہم نے کیا کر دیا ہے‘ اور اب وہ بدترین حالات میں وہی کرنے جا رہے تھے جو کہ ٹریفک کنٹرولر نے شروع سے انہیں کرنے کو کہا تھا۔ کراچی ٹاور نے ا س مرحلے پر ایئرپورٹ پر فل سکیل ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔

اس مرحلے پر طیارے کے دونوں انجن 94 فیصد پر چل رہے تھے لیکن دونوں انجن میں تیل کی مقدار کم ہو گئی تھی۔ انجن نمبر ایک میں 16 کوارٹ سے کم ہو کر چار کوارٹ جبکہ انجن نمبر دو میں 15 کوارٹ سے کم ہو کر پانچ کوارٹ رہ گئی اور یہ ایک منٹ سے کم دورانیے میں ہوا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ طیارے کے انجن کی رگڑ کے نتیجے میں انجن کا تیل کا تین چوتھائی حصہ لیک کر چکا تھا۔ اور کچھ ہی دیر میں آئل لو پریشر وارننگ جاری ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں دو بار ماسٹر وارننگ جارہی ہوئی جسے کپتان نے دونوں بار بند کر دیا۔

طیارے نے اس کے بعد دوبارہ رن وے 25 ایل پر لینڈنگ کی اجازت لی جس کا مطلب یہ ہے کہ طیارے کو ران وے کے ساتھ ساتھ چکر لگا کر واپس اسی مقام سے لینڈ کرنا تھا جہاں سے وہ پہلے اترنے کی ناکام کوشش کر چکا تھا۔ طیارہ بائیں جانب مڑا اور اس نے تین ہزار فٹ کی بلندی آیا۔

نو بج کر 36 منٹ پر انجن نمبر ایک کی رفتار کم ہونا شروع ہوئی اور بالآخر اس کے جنریٹر نے طیارے کو پاور دینی بند کر دی۔ یعنی اب طیارہ ساری پاور انجن نمبر دو سے حاصل کر رہا تھا۔ لیکن اس لمحے فرسٹ آفیسر کی آواز ریکارڈ کی گئی جو کہتے ہیں کہ ’تھرسٹ لیور نمبر ٹو روک دیں، نمبر دو (انجن) کو روک دیں۔‘

یعنی آپ کا ایک انجن تقریباً بند ہو چکا ہے اور جو انجن آپ کے طیارے کو پاور دے رہا ہے آپ اس کو بند کرنے کا کہ رہے ہیں اور کپتان جسے اس صورت حال میں زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا مگر وہ چوں کہ پہلے سے ایک بند گلی میں تھا اس نے بغیر توجہ اور فکر کے یہی کیا۔

کپتان نے اگلے ہی لمحے انجن نمبر دو کے تھرسٹ لیور کو روک دیا یعنی بند کر دیا جبکہ انجن نمبر ایک جو کہ پہلے ہی زبردست مشکلات کا شکار تھا اور اس کا جنریٹر بند ہو چکا تھا اس کے تھرسٹ لیور کو سب سے اوپر اڑان کے لیے چلا یا۔ یوں انجن نمبر دوکی طاقت 82 فیصد سے 46 فیصد پر آ گئی اور انجن نمبر دو کی قوت 82 فیصد سے کم ہو کر 71 فیصد پر آ گئی۔

اس کے نتیجے میں اگلے لمحے پرواز کے ڈیٹا ریکارڈر نے ریکارڈنگ بند کر دی کیوں کہ انجن نمبر ایک کے جنریٹر نے طیارے کو پاور دینا بند کر دی جبکہ انجن نمبر دو کا جنریٹر پہلے ہی پاور نہیں دے رہا تھا۔

اس موقع پر نو بج کر 36 منٹ 26 سیکنڈ پر کراچی ٹاور نے کراچی اپروچ سے پوچھا کہ کیا طیارے کے لینڈنگ گیئر نیچے ہیں؟

چھٹا مرحلہ

کاک پٹ وائس ریکارڈر چھ سیکنڈ بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا۔ جو دونوں انجنوں کی جانب پاور جنریشن بند ہونے کی وجہ سے تھا اور اسی لمحے ریم ایئر ٹربیائن چالو ہو گئی جو کہ طیارے کی پر کے نیچے ایک پنکھا ہوتا ہے جو کہ طیاروں کو ہنگامی حالات میں قوت دیتا ہے۔

اس کے بعد طیارے میں دو بار سٹال وارننگ (جب طیارہ رفتار کی کمی کے باعث پرواز کرتے کرتے رکتا یا آہستہ ہو جاتا ہے) اور دو بار Dual Input کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ جبکہ طیارہ اس وقت 1900 فٹ کی بلندی پر تھا۔ جس پر کراچی اپروچ کنٹرولر اس سے رابطہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ دو ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے آ چکے ہیں جس پر کپتان نے نیچے آنے کی اجازت طلب کی جو کہ اسے دے دی گئی۔

نو بج کر 37 منٹ 13 سیکنڈ سے اگلے آٹھ سیکنڈ تک کپتان اور فرسٹ آفیسر کے درمیان گفتگو ہوئی جس میں انجن نمبر دو کی حالت کے بارے میں پوچھا گیا اور تصدیق ہوئی کہ انجن نمبر دو کام کر رہا ہے۔ اس دوران دو بار متعدد سسٹمز کی وارننگ جاری ہوئی اور اسے کپتان نے بند کرنے کا کہا۔

اس دوران انجن نمبر دو کی رفتار 40 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک پہنچ چکی تھی اس موقع پر کراچی اپروچ نے پوچھا کہ کہ راڈار دکھا رہا ہے کہ آپ 1800 فٹ کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں اور مزید نیچے جا رہے ہیں جس پر کپتان نے کہا ’کاپیڈ، ہم بلندی برقرار رکھ رہے ہیں، رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

کپتان نے کہا کہ ’آپ نے انجن نمبر 2 کو IDLE کے لیے منتخب کیا تھا، جبکہ انجن نمبر 1 چلا گیا‘ جس پر فرسٹ آفیسر نے جواب دیا، ’جی ہاں۔‘

اس کے بعد انجن کے سٹال ہونے کی آواز ریکارڈ کی گئی جس پر کپتان نے پوچھا کہ یہ آوازیں کیسی ہیں تو فرسٹ آفیسر نے جواب دیا کہ ’رفتار کم کریں۔‘ جس پر انجن کی رفتار کم ہوئی اور یہ 65 فیصد سے کم ہو کر 42 فیصد تک پہنچی جس کے کچھ دیر بعد ایک سنگل سٹال وارننگ سنی گئی جس کے بعد ماسٹر وارننگ سنی گئی۔

اس کے بعد پھر سٹال وارننگ سنی گئی جس پر فرسٹ آفیسر نے کپتان سے کہا کہ وہ رفتار بڑھائیں، کچھ دیر بعد فرسٹ آفیسر نے پھر کہا کہ وہ رفتار بڑھانا جاری رکھیں۔ جس پر کپتان نے جواب دیا کہ ’میں کیسے رفتار بڑھاؤں؟‘

اس کے چند لمحے بعد فرسٹ آفیسر نے کنٹرولر سے پوچھا کہ ’کیا ہمارے پاس یہاں فیصل ایئربیس ہے؟‘ مطلب کیا ہم فیصل ایئربیس پر اتر سکتے ہیں؟ جس کے بعد کراچی اپروچ نے پرواز کو کہا کہ ’لگتا ہے آپ بائیں مڑ رہے ہیں۔‘

جس پر فرسٹ آفیسر نے جواب دیا کہ ’ہم ڈائریکٹ اتران جاری رکھیں گے ہم دونوں انجن کھو چکے ہیں۔‘ اس کا مطلب ہے کہ دونوں انجن پرواز کو طاقت دینا بند کر چکے تھے اسی لیے کپتان نے اوپر پوچھا تھا کہ رفتار کیسے بڑھاؤں۔

اس موقع پر کراچی اپروچ نے اس سارے سلسلے میں ایک اور کال کی جس نے اس پرواز کے تابوت میں آخری کیل ٹھوںکی۔

کنٹرولر نے پوچھا ’تصدیق کریں کہ آپ بیلی لینڈنگ کر رہے ہیں؟‘ یعنی کہ طیارہ بغیر لینڈنگ گیئر کے لینڈ کرے گا۔ جس پر فرسٹ آفیسر نے جواب دیا کہ ’نیگیٹو‘ یعنی نفی میں جواب دیا۔

جس پر کپتان نے فرسٹ آفیسر سے پوچھا کہ کیا لینڈنگ گیئر باہر نکالے جا چکے ہیں تو جواباً فرسٹ آفیسر نے جواب دیا کہ لینڈنگ گیئر نیچے نہیں کیے گئے ہیں۔

اس کے ردِ عمل میں طیارے لینڈنگ گیئر نیچے کیے جانے سے ملتی جلتی آواز سنائی دی اور ویڈیو پر دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارے کے لینڈنگ گیئر نیچے ہوئے۔ اس کے تین سیکنڈ بعد کپتان نے فرسٹ آفیسر سے کہا ’کیبن کرو سے بیٹھنے کا کہیں۔‘

دو سیکنڈ بعد فرسٹ آفیسر نے کیبن کرو کو مخاطب کر کے کہا کہ ’کیبن کرو اپنے سٹیشن پر تشریف لے جائیں لینڈنگ کے لیے۔‘ اس لمحے طیارے کی بلندی 700 فٹ تھی اور یہ بائیں جانب یعنی رن کے جانب اپنا چکر پورا کر کے مُڑ رہا تھا۔

دو سیکنڈ بعد کپتان نے ہوابازی کی مروجہ زبان میں ہنگامی کال کی ’مے ڈے، مے ڈے، مے ڈے‘ اس کے کچھ لمحے بعد فرسٹ آفیسر نے بھی ’مے ڈے‘ کال کی۔ اسی وقت طیارے میں سٹال وارننگز سنی جا سکتی تھیں۔ کراچی اپروچ کنٹرولر نے کال کر کے کہا کہ دونوں رن وے لینڈنگ کے لیے دستیاب ہیں۔

آٹھ سیکنڈ بعد کپتان کی آواز سنائی دیتی ہے ’فلیپس مت لو، فلیپس مت لو‘ جس کے بعد طیارے کی بلندی 400 فٹ تک آ گئی اور اس کے 24 سیکنڈ بعد طیارے کے کاک پٹ میں آواز ریکارڈ کی گئی جو اس کے ٹکرانے سے ملتی جلتی تھی جس کے بعد ریکارڈنگ بند ہو گئی۔

یوں طیارہ آبادی کے اوپر رن وے سے چند سو میٹر کے فاصلے پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس طیارے میں 89 مسافر سوار تھے جن میں سے دو زندہ بچ گئے جبکہ 87 مسافر اس حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

طیارے میں کپتان اور فرسٹ آفیسر سمیت عملے کے آٹھ افراد تھے ۔ حادثے کے نتیجے میں زمین پر ایک خاتون کی موت واقع ہوئی۔

ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بورڈ آف پاکستان کو کیا ملا؟

طیارہ

حادثے کے دن طیارہ قابل استعمال اور پرواز کے قابل تھا۔ فلائٹ کنٹرولز نے پرواز کے دوران توقع کے مطابق کام کیا اور طیارے کی ایمرجنسی ہینڈلنگ میں پرواز میں ایک محدود عنصر بن جاتا ہے۔

فلائٹ کنٹرولز نے ایونٹ کی پرواز کے دوران توقع کے مطابق کام کیا اور فلائٹ کے عملے کی ایمرجنسی ہینڈلنگ اور اس پورے عمل میں کسی طرح سے بھی ان کا کردار کارکردگی کو محدود کرنے کا نہیں تھا۔

طیارے کے لینڈنگ گیئرز نے جیسا ان سے توقع تھی ویسا کام کیا۔ طیارے کے دونوں انجن رن وے سے رگڑ لگنے کے نتیجے میں متاثر ہوئے اور انہیں نقصان پہنچا جس کے بتیجے میں انجن آئل لیک کیا اور انجن کی لبریکشن کم ہوئی جس کے نتیجے میں پہلے انجن نمبر ایک اور پھر انجن نمبر دو بند ہو گئے۔ طیارے کے ایمرجنسی لوکیٹر ٹرانسمیٹر کو سپارکو کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا تھا۔

پرواز کا عملہ اور پائلٹ

کپتان اور فرسٹ آفیسر لائسنس یافتہ، اہل اور طبی لحاظ سے اس ایونٹ کی پرواز کے لیے فٹ تھے۔ دونوں کے بارے میں کوئی سماجی نفسیاتی مسائل کی اطلاع / دستاویزات نہیں فراہم کی  گئیں۔

اگر دنیا میں بدترین پائلٹ بننے کی کوئی تربیتی کتاب ہو سکتی ہے یا کسی پائلٹ کو سکھانا ہو کہ وہ موت سے کیسے بچ اور بچا سکتا ہے تو اسے یہ رپورٹ ضرور پڑھائی جانی چاہیے۔

فلائٹ آپریشن

طیارے کے کپتان اور فرسٹ آفیسر نے پرواز کے دوران سٹیرائل کاک پٹ قاعدے پر عمل نہیں کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ پرواز کے عملے کے ممبر کی سرگرمی پر پابندی شامل ہے جو پرواز کے مصروف مراحل کے دوران عملی طور پر ضروری ہے۔

یعنی ’کسی بھی وقت جب پرواز کے عملے کو پریشان نہیں کیا جانا چاہیے، سوائے ہوائی جہاز کے محفوظ آپریشن کے لیے اہم معاملات کے۔‘

کپتان اور فرسٹ آفیسر نے لینڈنگ سے قبل اپروچ بریفنگ نہیں کی۔ چوں کہ یہ اہم مرحلہ طے نہیں کیا گیا تھا اس لیے کپتان یا فرسٹ آفیسر نے فلائٹ مینیجمنٹ سسٹم میں پرواز کا راستہ فیڈ نہیں کیا تھا اس لیے طیارے نے خود یہ کام کیا جس کی وجہ طیارہ اترتے ہوئے ہولڈنگ پوزیشن میں گیا جس پر کپتان چیخا تھا، ’ہولڈ سے نکالو، ہولڈ سے نکالو۔‘

اسی طرح کپتان اور فرسٹ آفیسر نے اس سارے عمل میں کوئی کراس چیک، کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس میں صورت حال کا جائزہ لے کر حساب کتاب کیا جائے۔ یعنی جب لینڈنگ گیئر نیچے نکالے گئے یا اوپر کیے گئے تو کپتان یا فرسٹ آفیسر نے اس پر کوئی کمیونیکیشن نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب ٹریفک کنٹرولر نے انہیں یاد دلایا تب بھی کپتان یا عملے نے کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کہ وہ پرواز کی اتران کا کوئی لائحہ عمل بنائیں یا طے کریں کہ وہ کیسے کریں گے۔ جس کی وجہ سے بعد میں دونوں نے مختلف ردِ عمل دے رہے تھے۔

رن وے سے قریب آنے پر فرسٹ آفیسر نے پوچھا کہ کیا ہمیں چکر لگانا چاہیے اور یہی فرسٹ آفیسر تھا جس نے اس سے قبل لینڈنگ گیئر اوپر کر لیے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرسٹ آفیسر کا ارادہ دوبارہ چکر لگانے کا تھا۔ مگر کپتان نے منع کر دیا۔

ارادے میں یہ تضاد بنیادی طور پرمزید آشکار ہوتا ہے جب کپتان طیارے کو بیلی لینڈنگ کرنے دینا چاہتا ہے جس کی وجہ سے طیارہ رن وے پر چار بار رگڑ کھاتا ہے جبکہ فرسٹ آفیسر جو اراؤنڈ کے لیے کہتا ہے جس پر کپتان پھر تھرسٹ لیورز کو گو اراؤنڈ یعنی دوبارہ اڑان بھر کر چکر لگانے اور دوبارہ لینڈ کرنے دیتا ہے۔

اس کے بعد بھی کپتان اور فرسٹ آفیسر دونوں صورت حال کے بارے میں بات نہیں کرتے کہ طیارے نے بغیر لینڈنگ گیئر کے رن وے پر اترائی کی ہے۔

یاد رہے کہ کپتان کی گذشتہ 12 مہینوں کی فلائٹ ہسٹری کے دوران متعدد ایسے مواقع تھے جب وہ پرواز کو تیز رفتار، رن وے پر زیادہ فاصلے پر لینڈنگ، اترائی کی بلند شرح اور اترنے سے رن وے پر ٹچ ڈاؤن کی طوالت اور کاک پٹ میں زمین سے کم فاصلے کی وارننگز ظاہر ہوئی تھیں۔ ان کی ہسٹری میں متعدد بار کوئی گو اراؤنڈز یعنی دوبارہ چکر نہیں لگایا گیا اور متعدد بار غیر مستحکم اپروچ کو جاری رکھا گیا۔

پرواز کے کپتان اور فرسٹ آفیسر کے فیصلوں پر ممکنہ طور پر روزے کا اثر تھا۔ تاہم، پرواز کے عملے کی پرواز کی کارکردگی پر اس کا اثرات کا تعین نہیں کیا جا سکا۔

آپریٹر یا ایئرلائن یعنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز

حادثے کے وقت پی آئی اے میں پروازوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے تجزیے کی شرح پانچ فیصد تھی۔ حادثے کے وقت تک پی آئی اے کے سیفٹی کے محکمے میں ایک کُل وقتی فلائٹ ڈیٹا تجزیہ کار یعنی اینالسٹ ہی دستیاب نہیں تھا۔

 جس کا مطلب یہ ہے کہ پی آئی اے میں غیر مستحکم اور بعض اوقات خطرناک پروازوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ نہیں کیا جاتا تھا۔ اور تجزیے کی غیر موجودگی میں اس پر کسی قسم کے اقدامات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ فلائٹ ڈیٹا تجزیہ کی شرح 5 فیصد سے کم تھی۔ لیکن جولائی 2020 کے بعد سے پی آئی اے میں تمام پروازوں کے ڈیٹا کا ایک مخصوص تجزیہ کار جائزہ لیتا ہے۔

پی آئی اے کے آپریشنز مینوئل میں صحت اور غذائیت سے متعلق تفصیلی رہنما اصول موجود ہیں۔ لیکن پرواز کے عملے کے کھانے کے مواقع کی کم از کم مدت اور دوارنیے، جس میں باقاعدگی سے کھانا کھایا جانا چاہیے، کا ذکر اس دستور العمل میں بیان نہیں کیا گیا تھا۔

پی آئی اے کے پاس 2002 سے قبل عملے کی شمولیت کا ریکارڈ، بشمول نفسیاتی تشخیص دستیاب نہیں تھی۔ پرواز کے عملے کا سانس کا چیک اپ پرواز سے پہلے نہیں کیا گیا تھا اورپرواز سے پہلے نفسیاتی مادوں کے لیے انڈرٹیکنگ سرٹیفکیٹ نہیں تھے۔

نہ ہی پرواز کے عملے کے نشہ یا منشیات کے عدم استعمال کے ضمانتی سرٹیفکیٹ موجود تھے۔ یہاں یہ ضروری نہیں کہ نشہ آوار اشیا ہی ہوں بلکہ ایسی ادویات بھی ہو سکتی ہیں جو نفسیاتی یا دماغی عوارضات یا جسمانی تکالیف مثلا آدھے سر کا درد، سر درد ، کمر میں درد یا آنتوں کے عوارضات شامل ہیں۔

ایئر ٹریفک کنٹرولر

ڈیوٹی ایئر ٹریفک کنٹرولرز اہل، درجہ بندی، طبی لحاظ سے فٹ تھے اور ان کے پاس درست لائسنس تھے۔ کراچی ایریا کنٹرول سے منتقلی کے بعد طیارہ حادثے تک کراچی اپروچ کنٹرول کے پاس رہا جو اس کے ساتھ رابطے میں رہے۔ کراچی اپروچ نے ہی کراچی ٹاور کنٹرولر سے کلیئرنس لے کر طیارے کو پہلی بار لینڈنگ کی اجازت دی۔ کراچی کے ٹاور کنٹرولر طیارے کی پچ ڈاؤن یعنی طیارے کی ناک نیچے کر کے تیزی سے اترنے کے سبب یہ طے نہیں کر سکے کہ لینڈنگ گیئر باہر ہے یا نہیں۔

طیارے کی پہلی بار بغیر لینڈنگ گیئر کے لینڈنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چنگاریوں کا مشاہدہ کیا مگر یہ بات طیارے کے عملے کو نہیں بتائی۔ نہ ہی طیارے کی دوسری بار اڑان پر اپروچ کنٹرولر نے اس بارے میں طیارے کے عملے سے کوئی بات کی۔

حادثے کی وجوہات

طیارے نے لینڈنگ گیئرز کے بغیر رن وے پر لینڈنگ کی جس کے نتیجے میں دونوں انجن متاثر ہوئے، لبریکیشن اور تیل لیک ہوا جو بالآخر دونوں انجنز کی تباہی پر منتج ہوا۔

دوران پرواز خصوصاً آخری نصف گھنٹے میں پائلٹ اور فرسٹ آفیسر نے ایس او پیز پر عمل نہیں کیا اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات اور تجاویز کو نظر انداز کیا۔

ایئر ٹریفک کنٹرولر اور کپتان اور فرسٹ آفیسر کے درمیان گیئرز کے بغیر لینڈنگ کے حوالے سے بات چیت یا کمیونیکیشن کا فقدان خصوصاً جب طیارہ رن وے پر رگڑ کھا چکا تھا۔

حادثے پر اثرانداز عوامل

پی آئی اے کی جانب سے فلائٹ ڈیٹا جائزے (ایف ڈی اے) کے پروگرام کا غیر موثر نفاذ۔

ای پی آئی اے کا ایف ڈی اے ریگولیٹری نگرانی کا پروگرام موثراور بروقت بہتری لانے کے میں غیر موثر تھا۔

روزہ کی حالت میں پرواز کو محدود کرنے کے لیے واضح اور درست ضوابط کا فقدان۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ