پلاسٹک بیگز کی روک تھام اور برانڈز کے اشتہار

کرہ ارض کی بحری، بری، اور فضائی آلودگی میں جتنا پلاسٹک کا ہاتھ ہے اتنا تو شاید زہریلی کاربن گیسز کا بھی نہیں ہو گا لیکن اس کے باوجود پلاسٹک اور پلاسٹک ویسٹ کی پیدوار جاری ہے۔

13 فروری 2011 کی اس تصویر میں اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں ایک مزدور اتوار بازار میں پلاسٹک بیگز فروخت کرتے ہوئے (اے ایف پی)

دنیا  کی پانچویں بڑی جمہوریت، موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستان پلاسٹک کے کچرے کی پیداوار میں دنیا کے 10 بڑے ممالک کی فہرست میں کھڑا ہے۔

کرہ ارض کی بحری، بری اور فضائی آلودگی میں جتنا ہاتھ پلاسٹک کا ہے، اتنا تو شاید زہریلی کاربن گیسز کا بھی نہیں ہو گا لیکن اس کے باوجود پلاسٹک اور پلاسٹک کے کچرے کی پیداوار جاری ہے۔

پاکستان میں جب پلاسٹک کے تھیلے کے متبادل کی بات آتی ہے تو چیزوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز ہوں یا کئی برانڈز جو اپنی مصنوعات کے علاوہ اب شاپنگ بیگ یعنی شاپر کی قیمت بھی وصولنے لگے ہیں۔

آپ 10 سے 15 ہزار کا جوتا خریدیں تو آپ سے وہ بڑا برانڈ 60 سے 100 روپے شاپنگ بیگ کی قیمت الگ سے وصول کرے گا۔ اسی طرح کسی بڑے جنرل سٹور سے مہینے بھر کا راشن لیں تو بھی ان کے پبلسٹی والے بیگ کی قیمت صارف کو ادا کرنا ہو گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یقیناً ان برانڈز کو اس بیگ کی قیمت وصول کرنے سے روکنے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے اور یہ دوگنا فائدہ بھی لے رہے ہیں یعنی اشتہارات پر سرمایہ لگانے کی بجائے الٹا صارف کی جیب سے وصول رہے ہیں یعنی قیمت بھی وصول اور برانڈنگ بھی مفت میں کیونکہ وہ بیگز دوبارہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

دودھ، دہی کی دکان ہو یا پھر سالن لینا ہو، پولیتھین بیگ ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تاحال ان مائع اشیا کے لیے کوئی متبادل مارکیٹ میں موجود نہیں ہے، جہاں چیزوں کی قیمتیں بڑھیں ہیں، وہی دکاندار بھی پریشان ہیں۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ لوگ 30 روپے کا دہی یا دودھ لینے آتے ہیں تو شاپر میں ہی لے جاتے ہیں، دکاندار کہتا ہے کہ شاپر کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ بچت تو شاپر میں چلی جاتی ہے۔

فرق دیکھیے کہ کروڑوں روپے کے برانڈز تو شاپر کی قیمت وصولتے نظر آ رہے ہیں جبکہ عام دکاندار یہ شاپر مفت میں فراہم کر رہا ہے۔

پاکستان میں پلاسٹک کچرا

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت پلاسٹک کی آلودگی تقریباً 460 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے جبکہ صرف پاکستان سالانہ 3.3 ملین ٹن پلاسٹک کچرا پیدا کر رہا ہے، جسے ایک جگہ جمع کیا جائے تو دو کے ٹو کے پہاڑ بن سکتے ہیں۔

کامسٹس کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 103 ٹن پلاسٹک کو پانی میں بہایا جاتا ہے، جس سے نہ صرف پانی کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے بلکہ نکاسی کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ 1600 ٹن پلاسٹک کے کچرے کو جلایا جاتا ہے، جس سے فضائی آلودگی کے علاوہ سانس کی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔

تین ملین ٹن سے زیادہ پیدا ہونے والے پلاسٹک کے کچرے کا صرف 28 فیصد جمع کیا جاتا ہے، جب کہ 74 فیصد پلاسٹک ویسٹ کو اُٹھایا ہی نہیں جاتا۔ مجموعی طور پر 40 فیصد پلاسٹک کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے دریا آلودہ ہو رہے ہیں، جب کہ 60 فیصد کو جلا دیا جاتا ہے۔

حکومت پلاسٹک سے متعلق کیا سوچ رہی ہے؟

اس حوالے سے جب وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید سے بات کی گئی تو انہوں نے پلاسٹک کی آلودگی کی روک تھام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قدر پلاسٹک کی پروڈکشن پر پابندی کی ضرورت ہے اور حکومت اس پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانے جا رہی ہے کیونکہ یہ بات نسلوں کی ہے۔

 انہوں نے مزید کہا: ’ہم اس حوالے سے ایک پالیسی ترتیب دے رہے ہیں تاکہ پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کو یقینی بنایا جائے یا پھر پلاسٹک کا متبادل استعمال کیا جائے جیسے کپڑے یا کاغذ کے تھیلے اور پلاسٹک کی جگہ کانچ کی بوتل ہو سکتی ہے۔

رومینہ خورشید عالم کے مطابق وزیراعظم دارالحکومت اسلام آباد کو پلاسٹک ریگولیشن 2023 کے تحت سنگل استعمال پلاسٹک کے تھیلوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر تمام صوبوں کو پلاسٹک پر پابندی سے متعلق سختی سے عمل درآمد کے لیے خطوط بھی ارسال کر دیے گئے ہیں۔

کامسیٹس کی ریسرچ میں پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کے لیے درج ذیل پانچ سفارشات دی گئی ہیں۔

1۔ پلاسٹک کی پیدوار کو کم کیا جائے

2۔ دوبارہ اور متبادل استعمال کی جانب جایا جائے

3۔ پلاسٹ کے فضلے کو زیادہ جمع کیا جائے تاکہ زمینی اور آبی آلودگی کو کم کیا جا سکے اور

5۔ پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کے عمل کو تیز کیا جائے اور مزید بہتر بنایا جائے۔

عالمی برادری اور پلاسٹک کی روک تھام

اس قدر وسیع پیمانے پر پلاسٹک کی آلودگی کی روک تھام کے لیے 2022 میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی کے سیشن میں 175 ممالک کا اکٹھ ہوا اور یہ طے پایا تھا کہ 2024 تک پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنا ہے لیکن آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ آلودگی ہر آئے دن کے ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ