انڈپینڈنٹ اردو کی نشاندہی: اسلام آباد پولیس نے ’کرائم ڈائری‘ معطل کر دی

اسلام آباد پولیس روزانہ کی بنیاد پر ایف آئی آرز ویب سائٹ اپلوڈ کرتی تھی جس میں شہریوں کی ذاتی تفصیلات موجود ہوتی تھیں مگر اب یہ سروس معطل کر دی گئی ہے۔

نو اپریل 2022 کو اسلام آباد پولیس کے اہلکار قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر موجود (تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد پولیس نے انڈپینڈنٹ اردو کی ایک خبر کی اشاعت کے بعد جمعرات سے اپنی ویب سائٹ پر کرائم ڈائری کی سروس عارضی طور پر معطل کر دی ہے، جس میں روزانہ درج ہونے تمام تر ایف آئی آرز اَپ لوڈ کی جاتی تھیں۔

انڈیپنڈںٹ اردو کی ویب سائٹ پر یکم مئی کو شائع ہونے والی خبر میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ پر موجود ان ایف آئی آرز میں کسی شہری پر لگنے والے الزامات کی تفصیل کے علاوہ درخواست گزار کی بھی مکمل تفصیلات درج ہوتی ہیں، جن میں درخواست گزاروں کے موبائل فون نمبر، شناختی کارڈ نمبر اور گھر کا پتہ تک شامل ہوتا ہے۔

آج (بروز جمعرات) اسلام آباد پولیس کے ترجمان جواد تقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے رابطہ کر کے آگاہ کیا کہ’ اسلام آباد پولیس نے ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کرائم ڈائری کی سروس کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا کہ'اس معاملے پر رائے لینے کے لیے لا ڈیپارٹمنٹ بھیجا جائے گا ان کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کیا جائے گا۔ '

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل خبر کی اشاعت کے وقت جب ترجمان جواد تقی سے رابطہ کیا گیا تھا تو اس وقت انہوں نے اس معاملے پر کہا تھا کہ ’ایک طرف اگر ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ ہے تو دوسری جانب’ رائٹ ٹو انفارمیشن‘ بھی ہے اور اسلام آباد ہی نہیں پوری دنیا میں ایسی کرائم ڈائریاں بنائی جاتی ہیں۔‘

انڈیپنڈنٹ اردو نے اس معاملے پر قانونی ماہرین سے بھی رائے لی تھی جنہوں نے اس طرز عمل کی مخالفت کی تھی کہ کسی کی ذاتی تفصیلات بغیر اجازت شائع نہیں ہونی چاہییں۔

ماہر قانون بیرسٹر جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ ’اگر نام اور موبائل نمبر تک کی معلومات کا تعلق ہے تو ٹھیک ہے، مگر دیگر معلومات جیسے کہ گھر کا پتہ اور شناختی کارڈ نمبر شائع کرنے کے لیے اجازت لینی چاہیے۔‘

انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’یہ تمام تر ذاتی معلومات ہیں اور بغیر اجازت پبلک نہیں کی جا سکتیں۔‘

اسی طرح جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ یقینی طور پر غلط ہے اور ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ کے خلاف ہے۔

ماہر قانون میاں اشفاق نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا  تھا کہ ’پولیس کو تمام کیسز کی اتنی جامع تفصیلات پبلک نہیں کرنی چاہییں بلکہ صرف کیس اور ایف آئی آر نمبر دینا چاہیے کیوں کہ اتنی شفافیت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ پورے ملک میں یا دنیا میں کوئی بھی شخص بغیر کسی تعلق کے اس کیس کی تمام تر تفصیلات حاصل کر لے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان