اسلام آباد پولیس کا شکایت گزاروں کی ذاتی معلومات شائع کرنا کیا درست ہے؟

کیا اسلام آباد پولیس لوگوں کی ذاتی معلومات شیئر کر کے شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے؟

18 جون 2020 کو اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کو اپنے فرائض سرانجام دیتے دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

حکومتی ادارے شہریوں کو فراڈ سے بچنے کی غرض سے اپنی ذاتی معلومات کسی کے ساتھ شیئر نہ کرنے کی تلقین کرتے رہے ہیں مگر دوسری جانب اسلام آباد پولیس وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے جرائم کی تفصیلات روزانہ اپنی سرکاری ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر رہی ہے۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے بھی شہریوں کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور شناختی نمبر کسی کے ساتھ شیئر نہ کرنے کی ہدایات موجود ہیں۔

اسی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی واضح ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ کوئی شہری کسی دوسرے شخص کو غیر ضروری طور پر اپنا شناختی کارڈ نمبر نہ بتائے۔

اس سب کے باوجود اسلام آباد پولیس خود شکایت گزاروں کی یہ معلومات سرعام شیئر کرتی پھر رہی ہے۔ 

اسلام آباد پولیس کی سرکاری ویب سائٹ پر دیگر معلومات کے علاوہ ’کرائم ڈائری‘ کے نام سے ایک الگ سیکشن رکھا گیا ہے، جس میں وفاقی دارالحکومت کے تھانوں میں روزانہ درج ہونے والی ایف آئی آرز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے جائزے کے مطابق اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ پر شائع ان ایف آئی آرز میں کسی شہری پر لگنے والے الزامات کی مکمل تفصیل کے علاوہ درخواست گزار کی بھی مکمل تفصیل درج ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر آٹھ اپریل 2024 کو ایک شخص نے اپنی موٹر سائیکل کی چوری کی درخواست دی، جس میں متاثرہ شخص کا گھر کا پتہ، موبائل نمبر اور شناختی کارڈ نمبر تحریر ہے اور یہ تمام تفصیلات اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ پر درج ہیں۔

اسی طرح دیگر ایف آئی آرز میں بھی درخواست گزاروں اور جس پر کوئی الزام ہے، اس کے بارے میں تمام معلومات درج ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ کے سیکشن کرائم ڈائری میں موجود ایک لیپ ٹاپ چوری کی ایف آئی آر درج کروانے والے شہری سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ کیا معلومات ان کی اجازت سے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئیں تو انہوں نے اس کا نفی میں جواب دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذکورہ شہری کے گھر کا پتہ، موبائل نمبر اور شناختی کارڈ نمبر ویب سائٹ پر موجود ایف آئی آر میں درج ہے۔

اسلام آباد پولیس نے خود ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے کی غرض سے شہریوں کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا ہوا ہے، جس میں کاپی حاصل کرنے کے لیے شہری کو اصل شناختی کارڈ، اس کی دو فوٹو کاپیاں، ایف آئی آر حاصل کرنے کی وجہ، ایف آئی آر نمبر اور پولیس سٹیشن، متعلقہ کاغذات کی کاپیاں اور اس کی فیس ادا کرنا ہو گی۔

دوسری طرف اسلام آباد پولیس کی ویب سائٹ پر ملزمان، متاثرہ شخص کی تفصیل، جائے وقوعہ اور دیگر تمام تفصیلات پر مشتمل معلومات موجود ہیں۔

اس معاملے پر جب اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا گیا تو فورس کے ترجمان جواد تقی کا کہنا تھا کہ ’ویب سائٹ پر کرائم ڈائری کا سیکشن ہے، جس میں اس دن کی ایف آئی آرز کی تفصیل درج ہوتی ہے اور قانون کے مطابق ایف آئی آر پبلک ڈاکومنٹ ہے۔ ‘

ترجمان اسلام آباد پولیس نے مزید کہا کہ ایف آئی آر کسی بھی اخبار، میڈیا میں چھپ سکتی اور پولیس سٹیشن سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ 

انہوں نے وضاحت کی کہ جس درخواست گزار کی جانب سے ایف آئی آر کو خفیہ رکھنے کا کہا جاتا ہے یا اس میں کوئی حساس معلومات ہوتی ہیں تو اسے سیل کر دیا جاتا ہے۔

ترجمان اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایف آئی آرز میں درج گھر کا پتہ، موبائل نمبر اور شناختی کارڈ نمبر چھپا دینے سے متعلق کوئی واضح جواب نہیں مل سکا۔

ترجمان جواد تقی سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس سے ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ متاثر نہیں ہوتا تو ان کا جواب تھا کہ دوسری جانب ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ بھی موجود ہے۔

ان کے مطابق اسلام آباد ہی نہیں پوری دنیا میں ایسی کرائم ڈائریاں بنائی جاتی ہیں۔

اگرچہ ایف آئی آر پبلک ڈاکومنٹ ہے لیکن کیا گھر کا پتہ، فون نمبر، شناختی کارڈ نمبر وغیرہ  پبلک کرنا کیا درست ہے؟ اس پر قانونی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔

ماہر قانون بیرسٹر جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ ’اگر نام اور موبائل نمبر تک کی معلومات کا تعلق ہے تو ٹھیک مگر دیگر معلومات جیسے کہ گھر کا پتہ، شناختی کارڈ نمبر شائع کرنے کے لیے اجازت لینی چاہیے۔‘

انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’یہ تمام تر ذاتی معلومات ہیں اور بغیر اجازت پبلک نہیں کی جا سکتیں۔‘

ایگزیکٹو ڈائریکٹر جسٹس پراجیکٹ پاکستان سارہ بلال کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ یہ طریقہ یقینی طور پر غلط ہے اور ’رائٹ ٹو پرائیویسی‘ کے خلاف ہے۔

ماہر قانون میاں اشفاق نے اس معاملے پر ایف آئی آر سے عدالت میں چالان پیش ہونے تک کا عمل بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس موقعے پر آ کر کیس کی فائل جج، دونوں اطراف کے وکیلوں کے پاس آ جاتی اور تب پولیس ایف آئی آر پبلک کرتی ہے تو وہ اپنی شفافیت دکھانے کے لیے کرتی ہے۔‘

انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کو تمام کیسز کی اتنی جامع تفصیلات پبلک نہیں کرنی چاہییں بلکہ صرف کیس اور ایف آئی آر نمبر دینا چاہیے کیوں کہ اتنی شفافیت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ پورے ملک میں یا دنیا میں کوئی بھی شخص بغیر کسی تعلق کے اس کیس کی تمام تر تفصیلات حاصل کر لے۔ ‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسا کرنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں مگر بیرون ملک جانے والے پاکستانی یا نوکری کرنے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے اتنی جامع تفصیلات کی بجائے کیس اور ایف آئی آر نمبر تک محدود ہونا چاہیے۔ ‘

شناختی کارڈ نمبر سے حاصل ہونے والی معلومات  

شناختی کارڈ نمبر سے بھی شہریوں کی کئی ذاتی معلومت حاصل ہو سکتی ہیں، جن میں نام، مستقل اور عارضی پتہ، تاریخ اور جائے پیدائش، والد کا نام، شناختی کارڈ کی تاریخ اجرا اور مقام، تاریخ منسوخی، شناختی نشان، انتخابی حلقے کا نمبر اور نام، موبائل سمز کے نمبر اور تعداد اور این ٹی این نمبر اور ایف بی آر میں موجود تمام معلومات وغیرہ۔

سندھ میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن تفصیلات بھی شناختی کارڈ نمبر سے چیک کی جا سکتی ہیں۔

نوٹ: یہ خبر یکم مئی کو شائع ہوئی اور دو مئی (بروز جمعرات) اسلام آباد پولیس کے ترجمان جواد تقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے رابطہ کر کے آگاہ کیا کہ’ اسلام آباد پولیس نے ’رائٹ ٹو پرائیویسی ‘کو مدنظر رکھتے ہوئے کرائم ڈائری کی سروس کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان