وہ مدارس جنہیں اصلاحات کی ضرورت نہیں

مدارس کے نام پہ چلنے والے چند ٹارچر سیلز کو اصلاحات کی نہیں ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں پانچ مئی، 2015 کو طلبہ اپنے مدرسے میں کلاس سے نکل رہے ہیں(عامر قریشی/ اے ایف پی)

مغرب کے لیے لفظ مدرسہ ایسی مسٹری لیے ہے کہ کئی پروڈیوسروں نے لمبی لمبی دستاویزی فلمیں بنا ڈالیں، ہر ڈاکومینٹری کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا لیکن پھر بھی یوٹیوب، نیٹ فلکس اور دیگر ویڈیو پلیٹ فارمز پہ ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ڈاکومینٹری آ جاتی ہے۔

یہ اپنی گہری تحقیق سے بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے مدارس میں کیا کچھ ہوتا ہے۔

ان ڈاکومینٹریز میں زمین پہ بیٹھے زور زور سے ہل کر قرآن کی تلاوت کرتے بچے دکھائے جاتے ہیں۔ کیمرے کا فوکس ان بچوں کے چہرے، پاؤں کی چپلیں، سر کی ٹوپی اور اس انگلی پہ ہوتا ہے جو پاروں کی سطروں پہ رکھی ہوتی ہے۔

مغرب کی دنیا میں مدارس کے نام پہ بہت کچھ بیچا گیا۔ امریکہ پہ نائن الیون حملے کے بعد یہ گورے نامور صحافی پاکستان کے کسی مقامی رپورٹر کے ساتھ نتھی ہوئے اور دو چار آرٹیکل شائع ہوتے ہی مدرسوں کے ماہر بن بیٹھتے۔

کچھ برس قبل برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں روئٹرز کے صحافتی تعلیم کے ایک ادارے میں ایسی ہی ایک نامور برطانوی صحافی سے ملاقات ہوئی۔

میڈم ہم صحافیوں کے گروہ سے بات کرتے ہوئے کوئی چار، پانچ بار پاکستان کے مدارس کا ذکر چھیڑ گئیں۔

وہ الزام لگا رہی تھیں کہ کیسے پاکستان کے یہ مدارس بین الاقوامی سطح کی ’دہشت گردی‘ کے لیے نرسری کا مقام رکھتے ہیں۔

باتوں باتوں میں محترمہ نے ایک جملہ پھینکا کہ پاکستانی مدارس میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے لیکن اس کے متاثرین خود پاکستانی بچے ہیں اس لیے انٹرنیشنل میڈیا پہ ایسی خبروں کو جگہ نہیں ملتی۔

’اور بھی بہت کچھ‘ میں کیا کیا شامل ہے، یہ ان بعض مدارس جانے والے بچوں، ان کے والدین کے علاوہ اب خاصوں کے ساتھ ساتھ ہم عام لوگوں کو علم ہو رہا ہے۔

مدارس ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اگر ایسے رجحانات معاشرے میں موجود ہیں تو مدارس میں ان کا در آنا حیرت کی بات نہیں۔ کیا سکولوں میں ایسے واقعات پیش نہیں آتے؟ لیکن مدارس میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اسے زیادہ اچھالا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ دنوں میں چند کالی بھیڑوں نے جسمانی اور جنسی تشدد کی تازہ وارداتیں کر کے پھر تنقید کا موقع دے دیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 21 جولائی کو سوات میں پیش آیا جو اس وقت میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ 

سوات میں دس بارہ برس کا بچہ تھا فرحان، دیگر خاندانوں کی طرح اس کے گھر والوں کو بھی لگا کہ مدرسے کی تعلیم کے لیے بھیج دو، دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔

بچے نے خوازہ خیلہ کے مدرسے میں کچھ عرصہ گزارا، گھر والوں کے بقول بچے نے شکایت کی کہ مدرسے کی انتظامیہ کے کچھ افراد اس سے ناجائز جسمانی مطالبات کرتے ہیں۔

بچہ چھٹیوں پہ گھر آیا اور واپس مدرسے نہ جانے کی ضد کرنے لگا۔ بچوں کی شکایات سے بالخصوص اگر معاملہ سماجی شرمندگی سے جڑے معاملات کا ہو تو بچوں کی بات کو دبا دیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بچہ اپنے بچپنے کے باعث ایسے ویسے بہانے بنا رہا ہے یا پھر بچہ ہے اسے کیا پتہ کہ بڑے اور استاد کبھی غلط نہیں ہوتے۔

فرحان کے گھر والوں نے بھی یہی سماجی رویہ اپنایا اور باوجود یہ کہ اس نے شکایت کی تھی وہ اسے واپس اسی مدرسے لے گئے۔

نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بچے کو ایسے تشدد کا نشانہ بنایا کہ عینی شاہد بچے کہتے ہیں کہ قاری صاحبان معصوم فرحان کو باری باری مارتے تھے یہاں تک کہ وہ جان سے چلا گیا۔

فرحان پر جو بربریت ہوئی، اس پہ صرف چند کالی بھیڑیں کہہ کر نظام کی خرابی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مبینہ طور پہ جس مدرسے میں یہ سانحہ پیش آیا، وہ رجسٹرڈ نہیں تھا۔ کوئی سرکاری نگرانی نہیں، کوئی حفاظتی اصول نہیں اور نہ ہی بچوں کے لیے کوئی شکایتی نظام۔

ایسے اداروں کو مدارس کہنا لفظ مدرسے کی توہین ہے۔ مدارس کے نام پہ چلنے والے ان بعض ٹارچر سیلز کو اصلاحات کی نہیں ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں مدارس کے حوالے سے اصلاح کی کوششیں گذشتہ دو دہائیوں سے جاری ہیں، لیکن سیاسی کھینچا تانی، بعض مذہبی حلقوں کی مزاحمت اور نفاذ میں نالائقی کے باعث اصلاحات بذات خود تنقید کا سامان بن جاتی ہیں۔

مدرسے مذہب، تاریخ یہاں تک کہ سائنسی علوم  کا سرچشمہ ہوا کرتے تھے، مدارس سے سائنس دان نکلا کرتے تھے، مدارس سے ملحقہ عمارت میں کہیں شفا خانے ہوتے تھے جہاں بوعلی سینا جیسے طبیب ہوا کرتے تھے۔

انہی مدارس کے احاطے میں ماہر سماجیات ابن خلدون بیٹھا کرتے تھے، الکندی یہاں چہل قدمی کر کے فلسفے کی گتھی سلجھاتے تھے، لیکن یہ سب دور پرے کے ماضی بعید میں ہوا کرتا تھا۔

افسوس کہ  جنہیں ہماری مادر علمی بننا تھا ان مدارس کو فرقہ پرستی، شدت پسندی، کٹھور سماجی خیالات، جدید علوم سے کوسوں دور، اور افسوس کے ساتھ جنسی استحصال جیسے قبیح جرم سے جوڑا جاتا ہے۔ مدارس سے منسلک سنجید اذہان کو سوچنا چاہیے کہ وہ  اپنے اداروں کو بدنامی کے گہرے گڑھے سے نکالنے کے لیا کر سکتے ہیں۔

والدین جو معاشی مجبوری کے باعث بچوں کو مدرسے بٹھاتے ہیں، یا وہ جو خالصتاً  مذہبی رجحان  کے باعث اپنے بچوں کو مدرسے بھیجتے ہیں وہ سب شرلاک ہومز نہیں بن سکتے کہ بچے کو داخل کرانے سے پہلے تحقیقات کریں، نہ ہی ہر کوئی قاری صاحب سے کریکٹر سرٹیفیکیٹ طلب کر سکتا ہے۔ یہ ریاست کا ذمہ ہے  کہ ریگولیٹ کرے۔

لیکن کوئی بچہ چاہے ماڈرن سکول کا ہو یا مدرسے کا، اگر اپنی ساتھ ہونے والی سنجیدہ نوعیت کی بدسلوکی کا تھوڑا سا بھی ذکر گھر والوں سے کر دے تو اپنے بچے کو سننا اور اس بچے کی عزتِ نفس اور زندگی کی حفاظت والدین کا ذمہ ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ