شاعر بھی برطانوی ورک ویزا کے حقدار

برطانیہ خوش نصیب ہے کہ ہر سال دنیا بھر کے شاعر یہاں آتے ہیں۔ شاعر ہنر مند کارکن ہیں، جنہیں ہوم آفس کی فہرست میں ہونا چاہیے۔

لیوک رائٹ اپنی شاعری پڑھتے ہوئے (لیوک رائٹ)

لو سنو: برطانیہ کے ہوم آفس کی ماہر کارکنوں کی فہرست میں شاعروں کا بھی نام شامل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ برطانیہ کا ورک ویزا حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ ہنس تو نہیں رہے؟

ریفارم پارٹی کے لی اینڈرسن تو یقیناً دانت چبا رہے ہوں گے۔ ریڈ وال ہیڈکوارٹر میں جیسے مذاق کا طوفان آیا ہوا ہے۔

وہ شاعروں کے اس فہرست میں شامل ہونے پر اتنے ہی برہم ہیں جتنے وہ اس میں انکلوژن اور ڈائیورسٹی مینیجرز کی موجودگی پر ہوتے ہیں۔

حالانکہ ’30 پینس لی‘ ادب کے خلاف نہیں، نہیں ہیں۔ وہ تو بس یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی غیر ملکی شاعر کی ضرورت نہیں۔

ان کا کہنا ہے، ’نہیں، ہرگز نہیں، اس سرزمین پر جسے شیکسپیئر اور پی جی وڈہاؤس جیسے دیوقامت ادیبوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، دنیا کی سب سے عظیم ادبی روایت رکھنے والے ملک کو شاعروں کی درآمد کی کیا حاجت؟‘

مجھے شک ہے کہ لی اینڈرسن  کو میرے کسی معاصر شاعر کا نام معلوم ہو، لیکن میں نے ان کے ’درآمد‘ جیسے لفظ کے استعمال سے خوب لطف اٹھایا۔

ذہن میں ایک منظر ابھرتا ہے: سینکڑوں شاعر لمبے جھالر دار کرتے پہنے، ہاتھ میں قلم تھامے کنٹینروں والے جہاز میں بھرے چلے آ رہے ہیں۔

جیسے ہی وہ برطانیہ کے نرم دل امیگریشن قوانین سے گزر کر اترتے ہیں، انہیں ٹرکوں میں لاد کر گاؤں قصبوں میں بانٹ دیا جاتا ہے، جہاں سرخ چہروں والے مقامی لوگ، ایک ہاتھ میں باغبانی کا کانٹا اور دوسرے میں ’رائٹ ہو، جیوز‘ (پی جی وڈہاؤس کی کتاب) کا نسخہ تھامے، گھبرا کر گھروں سے نکلتے ہیں۔

شاید بطور برطانوی شاعر، مجھے ’30 پینس لی‘ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں ان ’غیر ملکی شاعروں‘ سے بچا رہے ہیں۔ دیکھو، یہ ادھر آ کر ہمارے قافیے اور ردیفیں چھین لیں گے!

ویسے بھی، اگر وہ درآمد شدہ ڈائیورسٹی مینیجرز اور شاعر اکٹھے ہو گئے تو ہم جیسے سفید، سیدھے سادے مرد شاعر کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور ہاں، لی اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں فی الفور جس چیز کی ضرورت ہے وہ ڈاکٹر، مستری اور سرمایہ کار ہیں۔ وہ لوگ جو براہِ راست معیشت اور عوامی خدمات میں حصہ ڈالیں۔‘

بظاہر تو یہ بہت معقول بات لگتی ہے۔ ایک مرتے ہوئے بچے کا علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر چاہیے یا پت جھڑ کے بارے میں ایک ایسی نظم، جسے آپ سمجھ بھی نہ سکیں؟

’30 پینس لی‘ کی سیاست یہی ہے کہ ہمیں بحران کا شکار بتا کر، مجبوری کی چوائس دی جائے۔ بندوق کی نالی کے سامنے رکھ کر۔

مگر زندگی سیاہ و سفید رنگوں سے عبارت نہیں ہے، یہ سادہ دو طرفہ انتخاب نہیں۔

زندگی پیچیدہ اور تہہ دار ہے، بالکل اچھی شاعری کی طرح۔ شاعری پیچیدہ ہوتی ہے، وہ ہماری روح کی گہرائیوں میں اترتی ہے، اور ہمیں انسان ہونے کا احساس دلاتی ہے۔

شاعری اور دیگر سنجیدہ تحریریں، لی اینڈرسن جیسے شور مچاتے سیاست دانوں اور طنزیہ کالم نویسوں کی بازگشت سے بچاؤ کا بہترین نسخہ ہیں۔

اور آئیے اس خیال کو دفن کر دیں کہ فنونِ لطیفہ معیشت میں حصہ نہیں ڈالتے۔ برطانیہ کی تخلیقی صنعت کی مالیت 125 ارب پاؤنڈ ہے، اور ہم دو ٹکے کے شاعر بھی اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔

2023 میں شاعری کی کتابوں کی فروخت تقریباً سوا کروڑ پاؤنڈ تک پہنچ گئی، جو آج تک کی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔

اور اگرچہ شاعروں کا مذاق اڑانا کہ وہ یا تو لمبے بالوں والے بائرن ہیں، یا رِک مائیل جیسے عوامی شاعر، تفریح تو ہے، لیکن ہم شاعر درحقیقت محنتی لوگ ہیں۔ یہی میرا پیشہ ہے۔

میں شاعری سے اپنے گھر کا خرچ چلاتا ہوں، کرایہ ادا کرتا ہوں۔ ہر سال نیا شو لکھتا ہوں اور اسے ہزاروں افراد تک لے کر جاتا ہوں، ملک بھر کے آرٹس سینٹرز، تھیٹئرز اور گلیسٹنبری اور لیٹیٹیوڈ جیسے بڑے میلے میں۔

اور ہاں، میں کبھی کبھار ورک ویزا لے کر بیرونِ ملک بھی جاتا ہوں۔ یہ شاعروں اور ادیبوں کی قدیم روایت ہے، سفر کرنا، دنیا دیکھنا، لوگوں سے ملنا، خیالات کا تبادلہ کرنا، اور انسانیت کی مشترکہ قدریں تلاش کرنا۔

برطانیہ خوش نصیب ہے کہ ہر سال دنیا بھر کے شاعر یہاں آتے ہیں، ہمیں اپنے الفاظ اور خیالات سے متاثر کرتے ہیں، ہماری ثقافت کو مالا مال کرتے ہیں اور ہماری معیشت میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔

یقیناً شاعر ہنر مند کارکن ہیں، اور انہیں ہوم آفس کی فہرست میں ہونا چاہیے۔ شاعر برسوں تک اپنی فنکاری کو نکھارتے ہیں اور انسانی فطرت پر غور کرتے ہیں۔

اچھی شاعری انسان کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ جب ہمارے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہوتے، ہم شاعری کی طرف رجوع کرتے ہیں — جنازوں، شادیوں اور بحران کے لمحوں میں، وہ کچھ کہنے کے لیے جسے ہم کہہ نہیں پاتے۔

اس طرح شاعر بھی ہماری نمائندگی کرتے ہیں، اتنی ہی جتنی کوئی سیاست دان۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ