اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے بدھ کو عزہ میں انسانی بحران پر سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران کہا کہ غزہ مکمل تباہی کے دہانے پر ہے جہاں اموات صرف بمباری سے نہیں بلکہ زندگی کے بنیادی وسائل کے ’منظم خاتمے‘ سے بھی ہو رہی ہیں۔
عاصم افتخار نے کہا کہ غزہ میں ہسپتال بمشکل کام کر رہے ہیں کیونکہ سپلائی چین تباہ ہو چکی ہے۔
’بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور امداد جو لاکھوں کے لیے زندگی کی آخری امید ہے اب خود (موت کی) ایک خطرناک وجہ بن چکی ہے۔‘
انہوں نے غزہ میں حالیہ دنوں کے دوران امداد حاصل کرنے کی کوشش میں فلسطینیوں کی اموات کا حوالے دیتے ہوئے کہا ’یہ لوگ شدید گرمی میں خوراک کے لیے کھڑے تھے، مگر موت ان کی منتظر تھی۔
’یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ مسلسل مظالم کا حصہ ہے جو فوری تبدیلی کا متقاضی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے بھی منگل کو ایسے ہی واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران غزہ میں امداد حاصل کرنے کی کوشش میں کم از کم 875 افراد کی موت ہوئی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ بدھ 16 جولائی کو بھی پیش آیا جہاں خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوبی غزہ میں ایک امدادی مرکز میں بھگدڑ سے 20 افراد کی موت ہو گئی۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ بھگدڑ کی وجہ اسرائیلی افواج کی فائرنگ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل میں غزہ میں انسانی بحران پر ہوئے اجلاس کے دوران مزید کہا کہ ’اقوام متحدہ کے مطابق 798 امدادی کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں سے 615 امداد تقسیم کرنے والے مقامات پر مارے گئے۔
’اقوام متحدہ کا 400 مراکز پر مشتمل نظام ختم کر دیا گیا۔ اس کی جگہ اب جی ایچ ایف کے تحت چند مخصوص اور محدود مراکز ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ نظام انسانی حقوق کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ یہ زندگی کی امید نہیں بلکہ موت کا جال بن چکا ہے۔‘
’موجودہ امدادی نظام ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی غیر جانبدار امداد کو ملٹری کنٹرولڈ نظام سے بدل دینا بین الاقوامی انسانی اصولوں کے منافی ہے۔
’اس کا اثر صرف غزہ نہیں بلکہ مستقبل کی جنگوں میں عام شہریوں کی سلامتی پر بھی پڑے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تباہی قدرتی نہیں بلکہ ان پالیسیوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہے، جو اسرائیل کی جانب سے کیے گئے۔ یہ روکنے کے قابل ہے، اور روکا جانا چاہیے۔