کیا آئندہ چند دن یا ہفتوں میں غزہ میں عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کی جزوی رہائی کا معاہدہ ہو سکتا ہے؟ ہاں۔ کیا اس سے جنگ ختم ہو جائے گی اور ’جنگ کے بعد کا غزہ‘ سامنے آئے گا؟ نہیں۔
کیوں؟ وجوہات بہت سی ہیں لیکن سب سے بڑی اور غالب وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے۔
وہ اپنے ’زمانہ جنگ کے رہنما‘ کے درجے کے دلدادہ ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ غزہ، ایران اور دیگر مقامات پر مشرق وسطیٰ کا جغرافیائی سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک بدل رہے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد اور موقع پرستی کے لیے وہ جنگ اور ہنگامی صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز میگزین نے حال ہی میں ایک جامع اور تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ نتن یاہو 2024 کے آغاز سے جنگ کو طول دیتے آ رہے ہیں۔ تمام اشاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پالیسی اب بھی جاری ہے اور نہ صرف غزہ بلکہ مستقبل میں ایران پر ایک اور حملہ بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ نتن یاہو نے گذشتہ ہفتے اپنے واشنگٹن کے دورے کے دوران خود کہا۔
اس صورت حال میں جنگ بندی کے امکانات پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ غزہ میں فوری جنگ بندی کے بارے میں مسلسل باتیں اور قیاس آرائیاں اب افسوس ناک حد تک اکتا دینے والی اور پیش گوئی کے قابل ہو گئی ہیں۔ ہر روز یہی سننے کو ملتا ہے کہ معاہدہ بس ہونے ہی والا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ انتباہ بھی آ جاتا ہے کہ یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔
اس کی ایک وجہ ہے، یعنی جو معاہدہ مختلف رفتار سے زیر بحث ہے، اس میں 60 دن کی جنگ بندی، 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور 18 مردہ یرغمالیوں کی باقیات کا جزوی تبادلہ شامل ہے، جس کے بدلے غیر معینہ (لیکن بڑی) تعداد میں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے، جن میں بعض ایسے قیدی بھی ہیں جنہیں دہشت گردی اور قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
یہ معاہدہ جزوی نوعیت کا ہے اور اسے ایک بڑے معاہدے تک لے جانا مقصود ہے، اسی لیے اس کے اصول، نکات اور مراحل بھی ’جنگ کے بعد کے غزہ‘ کے بنیادی خاکے سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس بنیادی خاکے پر فریقین میں ابھی کوئی ہم آہنگی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اگلے چند دن یا ہفتوں میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو بھی جائے، تو اس کا برقرار رہنے پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس کے ٹوٹنے کا امکان تقریباً یقینی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے جنوری میں ہونے والا تقریباً ایسا ہی جنگ بندی معاہدہ 58 دن چلا اور پھر مارچ کے وسط میں اسرائیل نے اسے ختم کر دیا۔
اس حقیقت پسندانہ مگر نمایاں طور پر مایوس کن نقطۂ نظر کی وجوہات عملی بھی ہیں اور سیاسی بھی، جو دونوں مراحل کے درمیان واضح اندرونی تضادات میں نظر آتی ہیں۔ موجودہ مذاکرات میں کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جواب نہیں ملے، اور ہر ایک کا مختصر جواب یہ ہے کہ کیا حماس اقتدار میں رہے گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موجودہ معاہدے کے مطابق عملی طور پر ہاں۔ لیکن اسرائیل، امریکہ اور کچھ عرب ممالک کے ’جنگ کے بعد کے منصوبوں‘ کے مطابق نہیں۔ کیا اسرائیل دوبارہ تعیناتی کرے گا اور آہستہ آہستہ غزہ سے نکل جائے گا؟ معاہدے کے مطابق ہاں۔ لیکن اسرائیل کے مطابق نہیں، جو غزہ کے جنوبی حصے میں رفح سمیت بڑے بفر زون اور مکمل کنٹرول پر اصرار کر رہا ہے۔ کیا یہ تضادات دور ہو سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔
پھر یہ سوال آتا ہے کہ امریکہ نے حماس کو کیا ٹھوس ضمانتیں دی ہیں کہ 60 دن کے بعد اسرائیل دوبارہ جنگ شروع نہیں کرے گا؟ یہ واضح نہیں۔
یہ یقین دہانیاں کیسے اس ’جنگ کے بعد کے منصوبے‘ سے میل کھاتی ہیں جس میں حماس کو ہٹانا ہے؟ بالکل میل نہیں کھاتیں۔ غزہ میں انسانی امداد اور خوراک و ادویات کی فراہمی کی ذمہ داری کس کی ہے؟ یہ بھی واضح نہیں۔
نام نہاد ’جنگ کے بعد کے غزہ‘ کے سیاسی منصوبے اور اقتدار کے ڈھانچے میں کیا شامل ہے؟ امریکہ بنیادی طور پر اماراتی منصوبے پر غور کر رہا ہے، جس میں دیگر فریقوں نے تو حصہ ڈالا ہے لیکن اسرائیل نے نہیں۔ اس منصوبے کے پانچ بنیادی اصول ہیں اور یہ سب 60 دن کے جنگ بندی معاہدے کے کامیاب نفاذ پر مبنی ہیں۔
’غیر حماس فلسطینیوں‘ کو اقتدار کی بتدریج منتقلی۔ اس عمل کو پانچ عرب ممالک یعنی سعودی عرب، مصر، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
ان ممالک میں سے بعض کی جانب سے سکیورٹی فورس تشکیل دی جائے گی، جسے امریکی نجی ٹھیکیداروں اور ممکنہ طور پر غزہ سے باہر قائم امریکی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی معاونت حاصل ہو گی۔
یہ منصوبہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ان ممالک کو عمل درآمد کی دعوت دینے کے بعد شروع ہو گا۔ اس طرح فلسطینی اتھارٹی بھی شامل ہو گی، لیکن اسرائیل یہ دعویٰ کر سکے گا کہ وہ اقتدار کے ڈھانچے کا حصہ نہیں۔
عرب شراکت دار ایک نئی سکیورٹی فورس کی منظوری دیں گے، بھرتی اور تربیت کا اہتمام کریں گے اور غزہ کی بحالی کے لیے درکار فنڈ (جس کا تخمینہ 60 ارب ڈالر سے زائد ہے) اکٹھا کریں گے۔
منصوبہ فلسطینی اتھارٹی کو اصلاحات پر مجبور کرے گا تاکہ وہ ایک قابل اعتماد مذاکراتی فریق بن سکے۔
کیا اسرائیل کسی ایسے منصوبے پر متفق ہے؟ نہیں۔ کیا اس کے پاس کوئی متبادل منصوبہ ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔
یہیں ے ہم اس دوسرے تضاد تک پہنچتے ہیں جو کسی طویل مدتی معاہدے کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ یعنی نام نہاد ’انسانی حقوق کا شہر‘ (humanitarian city) یہ اصطلاح اخلاقی طور پر انتہائی پست اور جارج اورول کی ’خیالی زبان‘ (Newspeak) جیسی ہے، جو شاید کسی گھٹیا سائنس فکشن فلم سے لی گئی۔ مستقل کی اس جگہ کو نسلی صفائی اور جبری بےدخلی کے مقام کے طور پر بیان کیا گیا۔
یہ بات واضح ہے کہ اس بالکل ناقابل عمل مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے (جس کی اسرائیلی فوج سخت مخالفت کرتی ہے)، اسرائیل کو غزہ میں بڑی فوجی موجودگی برقرار رکھنی ہو گی۔
ہاں! عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ممکن ہے اور اسے قبول کرنا چاہیے کیوں کہ اس کا متبادل (جنگ جاری رکھنا) بہتر نہیں لیکن نہیں، کیوں کہ جب تک نتن یاہو یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ جاری رہنی چاہیے، اس وقت تک کسی مستقل معاہدے کی امید نہیں۔
نوٹ: اس تحریر کے مصنف ایلون پنکس امریکہ میں اسرائیل کے سابق قونصل جنرل ہیں اور دو سابق وزرائے اعظم شمعون پیریز اور ایہود باراک کے سیاسی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
© The Independent