وائٹ ہاؤس کے ’بلیو روم‘ سے فی الحال اتنا ہی

اس ’بلیو روم‘ کے نہاں خانوں سے ایک چیز یہ سامنے آئی ہے کہ اصلی اور بڑی خواہش اور کوشش ہی نہیں تیاری و ترجیح یہ ہے کہ غزہ چاہیے اور اہل غزہ اور حماس دونوں کے بغیر چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 7 جولائی 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے بلیو روم میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاہو پیر کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے، جنہوں نے غزہ کی پٹی سے یرغمالیوں کو رہا کرنے والے اسرائیل اور حماس کے درمیان "اس ہفتے ڈیل" کی امید ظاہر کی تھی (اینڈریو کیبلیرو-رینولڈز / اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں بالآخر ملاقات بھی ہو گئی، جس کا بظاہر بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش رفت کرنا تھا، اس لیے دنیا میں بہت سوں کو اس ملاقات کا انتظار تھا۔

بہت سے ایسے بھی ہیں وہ پہلے سے ہی اس نتیجے کو پہنچ چکے ہیں کہ یہ ملاقات بظاہر تو جنگ بندی کے لیے ہے مگر حقیقتاً ایک نئی اور بڑی جنگ کی پیش بندی کے لیے ثابت ہو گی۔

جنگ بندی کا اعلان جس کی بہت سوں کو توقع تھی وہ بہرحال فوری سامنے نہیں آ سکا۔

اس کی وجوہات مختلف اور متنوع ہو سکتی ہیں۔ اولاً جنگ بندی کا بڑا شور ہو چکا تھا مگر کچھ دوسرے، کچھ سنجیدہ اور کچھ اہم کاموں کے لیے ابھی وقت درکار تھا۔

جنگ بندی کے بلند کیے گئے غوغے سے جتنا اب تک فائدہ لینا تھا یا حاصل کرنا تھا وہ صدر ٹرمپ کی شخصیت کو نوبل انعام کے چار چاند لگانے کی کوشش کے سلسلے میں کچھ پیش رفت کرنا تھی۔

اپنے تئیں اسرائیل تو سب سے بڑا امن پسند ملک ہے۔ اس کے غیر فوجی قسم کے فیلڈ مارشل اب تک کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اس وقت ایک جنگ 22ویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے جبکہ وہ ایک آدھ جنگ اپنی سٹریٹجی کی پائپ لائن میں ہمہ وقت رکھتے ہیں۔

جیسا کہ اب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد بھی وہ کم از کم ایک اور جنگ کی پیش بندی اور تیاری میں ضرور مصروف ہیں۔

اس لیے لازم تھا کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کی بنیاد پر مطلوب ہونے کی پروا نہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز کا سب سے زیادہ مستحق قرار دیتے۔

اگر کوئی ان سے پوچھے تو وہ اصلی حقدار برائے نوبل انعام تو خود کو ہی سمجھتے ہوں گے مگر غزہ میں جنگی مصروفیات سے فی الحال ان کے پاس تقریب میں جانے کے لیے موقع بہرحال نہیں تھا۔

ایک خطرہ یہ بھی تھا ان کے انعام وصول کرنے کے لیے جاتے ہوئے کسی ملک کے رہنما میں انسانی حقوق کے حوالے سے نیویارک کے متوقع میئر ظہران ممدانی کی روح حلول کر گئی تو نتن یاہو کو گرفتار کرنے کی باتیں شروع کر دیتا۔ جو خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مترادف ہوتا۔

اب بھی نیویارک کی طرف سے واشنگٹن آنے والی خبروں نے بدمزہ کیا ہے اور نوبل انعام برائے ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کی بنیاد رکھنے میں کوشاں نتن یاہو کو جنگی جرائم میں ملوث سمجھنے والے ظہران ممدانی نے اچھا نہیں کیا۔

خود صدر ٹرمپ نے بھی وہ تاریخی دستاویز حاصل کرتے ہوئے جس میں نتن یاہو انہیں نوبل انعام کمیٹی کو لکھے گئے اپنے خط میں نامزد کر کے اس کی ایک نقل ہمراہ لائے تھے اور براہ راست صدر ٹرمپ کو پیش کر رہے تھے اس پر ٹرمپ کا تبصرہ بھی تاریخی تھا، ’واہ بہت خوب۔۔۔ آپ کا یہ نامزد کرنے والا خط بہت معنی خیز ہے۔‘

بہرحال نتن یاہو نے تو غزہ میں 57 ہزار سے زائد فلسطینیوں کے قتل عام، پورے غزہ کو ملبہ بنانے اور اب موجودہ مرحلے میں خوراک لینے آنے والے اہل غزہ کو بھی لقمہ اجل بنانے کے بعد اپنی تمام تر امن گواہی ٹرمپ کے حق میں دیدی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سچی بات یہ ہے کہ نتن یاہو نے یہ کر کے ٹرمپ پر کوئی احسان نہیں کیا۔ غزہ جنگ کے علاوہ لبنان، ایران اور یمن و شام میں حالیہ جنگی جارحیت کا اکیلا اسرائیل کچھ نہیں کر سکتا تھا، اس لیے انہوں  نے ایک طرح سے نوبل انعام کے لیے صدر ٹرمپ کو نامزد کر کے اس کردار اور احسان کا اعتراف کیا ہے جو صدر ٹرمپ اور امریکہ نے شروع دن سے بالعموم اور حالیہ برسوں میں بالخصوص اسرائیل کے لیے اختیار کر رکھا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات کی خوبصورتی یہ تھی کہ امریکہ میں نتن یاہو کی اس اہم ترین ملاقات سے پہلے والی ملاقاتوں، باتوں اور گھاتوں کی کوئی بھنک باہر نہیں آنے دی گئی تھی۔ صرف صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے اس عشائیہ ملاقات اور لمبے مذاکرات کو اس سے قبل نتن یاہو کی ’پبلک اپیئرنس‘ کے موقع پر ’ڈیکلیئر‘ کیا گیا تھا۔

مگر ہوا یہ کہ اس کا بھی صرف وائٹ ہاؤس کے ’بلیو روم‘ میں ہونے والے پرتکلف عشائیے کی تصاویر اور نوبل انعام کے لیے نامزدگی کے خط کی حوالگی کی ویڈیو کے علاوہ باضابطہ کوئی چیز سامنے نہیں آنے دی۔ کوئی فیصلہ سامنے آیا نہ اعلان۔ گویا جو کچھ طے پایا اور عالمی برادری کو بتائے جانے کے لائق تھا وہ صرف نوبل انعام کے حوالے سے نتن یاہو اور ٹرمپ کا یہ نیا رشتہ تھا۔

رہی باقی باتیں تو ان میں صدر ٹرمپ نے کوئی مشترکہ پریس کانفرنس نہ کر کے جہاں فیصلوں کو فوری سامنے نہ لانے کا بندوبست کیا وہیں یہ موقع بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش جاری رکھی کہ جنگ بندی جب بھی ہو گی اس کا اعلان کرنے کا ’کریڈٹ‘ ٹرمپ ہی لیں گے۔

جیسا کہ اس سے پہلے وہ بعض جنگ بندی نما چیزوں کا اعلان خود کر کے اپنے ’ٹروتھ سوشل‘ کے توسط سے کر چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے ایلون مسک کہتے ہیں وہ ٹروتھ سوشل کو جانتے ہی نہیں۔

اس ’بلیو روم‘ کے نہاں خانوں سے ایک چیز یہ سامنے آئی ہے کہ اصلی اور بڑی خواہش اور کوشش ہی نہیں تیاری و ترجیح یہ ہے کہ غزہ چاہیے اور اہل غزہ اور حماس دونوں کے بغیر چاہیے۔

اہل غزہ کے بغیر اس طرح کہ ’غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ کی غذائی طاقت سے اہل غزہ کے لیے ’ہیومینیٹیرین کیمپ‘ لگا کر انہیں ’رضاکارانہ‘ طور پر یہاں سے نکل جانے کا موقع دیا جائے۔

یقیناً اسرائیلی فوج جس کے لیے وائٹ ہاؤس کے ’بلیو روم‘ میں دونوں کو تقریباً قائل اور مائل پایا گیا ہے کہ غزہ سے حماس کا جانا اب ٹھہر گیا ہے۔ اس کی جگہ اسرائیلی فوج لازماً کچھ دیر یا عرصہ پورے غزہ کو اپنے کنٹرول میں رکھے گی۔

یہ ’غزہ فاؤنڈیشن‘ کی غذائی طاقت کے بغیر ممکن نہ ہو سکتا تھا۔

گویا پہلے غزہ سے اسرائیلی فوج کی بدترین ناکہ بندی کے دوران ’غزہ فاؤنڈیشن‘ کے امدادی مراکز سے فلسطینیوں کے قتل عام کا ایسا ماحول بنایا جائے گا کہ یہ فلسطینی غزہ کے شمالی اور وسطی و جنوبی حصوں سے انتہائی جنوبی علاقے رفح کی طرف ’غزہ فاؤنڈیشن‘ کے ’محفوظ‘ کیمپوں میں جاننے پر ’رضاکارانہ‘ طور پر مجبور ہوں گے۔

اگرچہ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جو غزہ میں ہی رہنا چاہے گا وہ رہتا رہے، کوئی مسئلہ نہیں۔

غزہ سے فلسطینیوں کی اس دوسرے انداز کی نسلی صفائی کے بعد ساتھ ساتھ اور پھر دونوں حالتوں میں اسرائیلی فوج حماس کا صفایا کرے گی۔

اس کے لیے ابو شہاب نامی بدوی سردار کے ’امن لشکر‘ غزہ میں خانہ جنگی شروع کرنے میں اسرائیلی فوج کے مددگار بنیں گے۔

امکانی طور پر حماس اور مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی فوج کا آخری ہلہ اور خانہ جنگی کا یہ مرحلہ کافی ثابت ہو جائے گا۔

اس دوران ’غزہ فاؤنڈیشن‘ کے ’محفوظ‘ کیمپوں کو خوب مشتہر کر کے فلسطینیوں کے لیے عملاً ہوں گے تو حراستی کیمپ ہی جیسے کبھی نازیوں نے یہودیوں کے لیے قائم کیے تھے۔

مگر ان میں رہنے والے چونکہ اسرائیل و امریکہ کے بقول محفوظ تر ہوں گے۔ اس لیے خطے کے ممالک بھی نہ صرف تسلیم کریں گے بلکہ تعاون بھی کریں گے۔

جیسا کہ نتن یاہو نے امریکہ میں ہوتے ہوئے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ خطے میں ایسے ملک مل جائیں جو غزہ کے فلسطینیوں کو بسانا پسند کر لیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ مصر، اردن اور اکا دکا عرب دوست ملکوں کا نام  لے چکے ہیں اور انہیں ’رام‘ کرنے کے لیے ان کے کچھ کام کرنے اور دام بھرنے کے اشارے بھی دے چکے ہیں۔ اس لیے بتدریج ہی سہی یہ مسئلہ بھی طے ہو جائے گا۔

اس کی نوید نتن یاہو کے الفاظ میں یہ ہے کہ ہم نے مل کر پہلے بھی کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آئندہ بھی یہ کامیابیاں بڑھتی رہیں گی۔ ان مراحل کی کامیابی پر مہر تصدیق ابراہم معاہدے پر عمل کے لیے مزید عرب ملکوں کے قدم بڑھانے سے لگے گی۔

عرب ملکوں کی یہ مہر تصدیق بذریعہ ابراہم معاہدہ بالآخر امن کے نوبل انعام کی ٹرمپ کے نام ہونے کی راہ ہموار ہو گی اور اس وقت نتن یاہو کا صدر ٹرمپ کو پیش کیے گئے خط کی نقل ایسے کام آنے کی نتن یاہو کو امید ہے جیسے پرانے وقتوں میں راہداریوں اور معاہدوں کے آخر میں لکھا ہوتا تھا ’تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔‘

اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ’بلیو روم‘ میں صرف کھانا نہیں کھایا گیا اور بھی کافی پیش رفت اور پیش بندی کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

جس کے نتیجے میں اسرائیل کے حق میں فلسطین و غزہ ہی نہیں پورے مشرق وسطیٰ میں راوی امن ہی امن لکھے گا اور امن کے سالانہ نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی ٹرمپ کے لیے امن کا نوبل انعام لکھ دے گی۔

بعد ازاں دیکھا جائے گا کہ ایران، لبنان، شام اور فلسطین میں کشتوں کے پشتے لگانے میں مل کر ایک ’خوبصورت امتزاج‘ کے ساتھ کام کرنے والے اسرائیل و امریکہ خطے میں کس مملکت کی ناہمواریوں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ہاں بالکل، ایسے ہی ’ذرا یہ نوبل انعام مل جائے تو اس کے بعد دیکھیں گے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر