کراچی: ’جنسی تشدد‘ کے بعد نئی نویلی دلہن کوما میں، شوہر گرفتار

کراچی کے علاقے لیاری میں شادی کے محض تین دن بعد 19 سالہ لڑکی کو شوہر نے مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں لڑکی کوما میں ہے۔

کراچی پولیس کا ایک اہلکار 13 نومبر، 2023 کو ایک گھر کے باہر موجود (اے ایف پی)

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ لیاری میں شادی کے محض تین دن بعد 19 سالہ لڑکی کو شوہر نے مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث نئی نویلی دلہن کوما میں ہے۔

پولیس کے مطابق لڑکی کی حالت تشویشناک ہے اور سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں زیرِ علاج ہے۔ واقعے کے بعد شوہر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

لڑکی کی شادی 15 جون کو لیاری میں ہوئی تھی۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ ایک خوفناک کیس ہے اور اس کےجسمانی معائنے کی رپورٹ جنسی تشدد سے مطابقت رکھتی ہے۔ لڑکی کو مستقل جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس وقت لڑکی کی حالت تشویشناک ہے۔ وہ کوما میں ہے۔‘

ایس ایس پی جنوبی عارف عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور مکمل تحقیقات جاری ہیں۔ یہ ایک سنگین اور حساس جرم ہے، جسے پولیس انتہائی سنجیدگی اور ترجیح کے ساتھ  نمٹا رہی ہے۔‘ 

پولیس نے مقدمہ پانچ جولائی کو بغدادی تھانے میں بھائی کی مدعیت میں درج کیا، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی قتل کی کوشش اور گینگ ریپ سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر میں لڑکی کے بھائی نے بتایا کہ ’شادی کے تیسرے روز میری بہن کو اس کے شوہر نے شدید جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ پہلے اسے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا، پھر حالت بگڑنے پر اسے سول ہسپتال کے شہید محترمہ بےنظیر بھٹو ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا۔‘

ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’اس کی 19 سالہ بہن نے 15 جون کو ملزم سے شادی کی تھی۔ 30 جون کو اس کی صحت بگڑی، جس کی وجہ سے گھر والوں نے اسے گھر واپس لانے پر مجبور کیا۔ اس نے والدین کو مطلع کیا کہ 17 جولائی کو اس کے شوہر اشوک ولد موہن نے ’غیر فطری جنسی فعل‘ کا نشانہ بنایا۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’لڑکی کے شوہر نے اسے کچھ بولنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی۔‘ 

پاکستان میں خواتین اور بچیوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عورت فاؤنڈیشن کی نمائندہ مہناز رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی تو پنڈی میں زینب نامی بچی کے ساتھ اسی نوعیت کا لرزہ خیزظلم کیا گیا تھا۔ اس کے جسمانی اعضا کو وحشیانہ انداز میں نقصان پہنچایا گیا۔ اس وقت بھی معاشرے میں شدیدردعمل سامنے آیا تھا اور بےنظیر بھٹو نے خود اس واقعے کا نوٹس لیا تھا۔‘

انہوں نے عالمی سطح پر جاری رضامندی کی مہمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب دنیا بھر میں فیمنسٹ تحریکیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ کسی بھی قسم کے جنسی تعلق میں عورت کی مکمل رضامندی بنیادی شرط ہونا چاہیے۔

’چاہے تعلق شوہر بیوی کا ہو، لیکن شادی کے بندھن کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے جسم پرمرد کو مکمل اختیار حاصل ہو جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میریٹل ریپ‘ بھی ایک حقیقت ہے، جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘

مہناز رحمان کا کہنا تھا کہ حکومت، سوشل ویلفیئر اداروں، این جی اوز اور سول سوسائٹی سب کو مل کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

ملک میں خواتین پر بڑھتے ہوئے جنسی اور گھریلو تشدد کے واقعات پر سید کو ثر عباس ایگزیکٹو ڈائریکٹر سسٹینایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن  نے کہا کہ ’ان واقعات کا تعلق صرف قانون شکنی سے نہیں بلکہ گہرے نفسیاتی و سماجی مسائل سے بھی ہے، جنہیں سنجیدگی سے ایڈریس کرنا ناگزیر ہے۔‘

کوثر عباس نے پنجاب میں قائم خواتین کے پروٹیکشن سینٹرزکی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسے مراکز جہاں مسائل کے حل فراہم کیے جاتے ہیں جیسے قانونی امداد، میڈیکل سہولیات، سائیکو سوشل سپورٹ اورریہیبلیٹیشن سندھ سمیت دیگر صوبوں میں بھی قائم کیے جانا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان