پاکستان کا معاشی چیلنج: صرف استحکام کافی نہیں

پاکستان غربت کے جال سے کیسے نکل سکتا ہے؟ اس کا حل کوئی جادوئی نسخہ نہیں، بلکہ فوری ریلیف اور ساختی اصلاحات کو یکجا کرنے والی ایک جامع حکمت عملی ہے، جس میں کامیاب پڑوسی ممالک کے تجربات سے بھی سیکھا جانا چاہیے۔

کراچی میں 28 نومبر 2023 کو سٹاک ایکسچینج کی عمارت میں ایک شخص حصص کے الیکٹرانک بورڈ کی تصویر لیتے ہوئے (روئٹرز)

پاکستان کی معیشت کی کہانی اب صرف مواقع گنوانے کی داستان نہیں رہی، بلکہ یہ مایوسی کے حساب کتاب کی مثال بن چکی ہے۔

اس سال حیران کن طور پر 10 کروڑ 20 لاکھ پاکستانی، یعنی آبادی کا 45 فیصد حصہ، روزانہ 3.65 ڈالر سے کم آمدن پر گزارا کر رہا ہے جو صرف ایک سال پہلے 39.4 فیصد تھا۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ 16.8 فیصد لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں اور روزانہ 2.15 ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی ہیں جہاں امید تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

گذشتہ مالی سال (2025) میں محض 2.7 فیصد عارضی شرح نمو پاکستان کی نوجوان آبادی کے لیے ناکافی ہے، جو پہلے ہی دباؤ کا شکار روزگار کی منڈی پر بوجھ ہیں۔ مالی سال 2023 سے 2025 تک اوسط شرح نمو 1.7 فیصد رہی، جو 1952 کے بعد سب سے کم ہے۔

اسی دوران اوسط پاکستانیوں کی کی قوت خرید گذشتہ تین سال میں 58 فیصد کم ہو چکی ہے، جسے مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بری طرح متاثر کیا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح 22 فیصد ہے اور تقریباً ایک کروڑ 90 لاکھ پاکستانی بےروزگار ہیں، جب کہ نوجوانوں میں بے روزگاری نئی بلند ترین سطح 29 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

یہ صرف وقتی بحران نہیں بلکہ ساختی مسئلہ ہے۔ ایک ایسی کم شرح نمو والی صورت حال جہاں معاشی ’استحکام‘ دراصل مستقل مشکلات کے لیے محض ایک نرم لفظ ہے۔

آبادی کا 40 فیصد حصہ ناخواندہ ہے، جن میں دیہی علاقوں کی 15 سے 25 سال عمر کی 61 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ 26 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ یہ صرف پالیسی کی ناکامیاں نہیں، بلکہ سوچ اور ارادے کی بھی ناکامی ہے۔

اگر پاکستان کا پڑوسی ممالک سے موازنہ کیا جائے تو مواقع گنوانے کا احساس اور شدید ہو جاتا ہے۔ انڈیا نے مسلسل چھ سے سات فیصد شرح نمو، ڈیجیٹل کیش ٹرانسفرز اور تعلیم میں سرمایہ کاری کے ذریعے انتہائی غربت کو 5.3 فیصد تک کم کر لیا ہے۔

بنگلہ دیش، جہاں غربت کی شرح 14 فیصد ہے، ملبوسات کی برآمدات کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت 23 فیصد ہے، جو جنوبی ایشیا کی 27 فیصد کی شرح سے پیچھے ہے اور یہی بات ملکی پیداواری صلاحیت اور سماجی ترقی میں رکاوٹ ہے۔

مالیاتی بدانتظامی، محدود ٹیکس نیٹ اور پسماندہ بالواسطہ ٹیکسوں نے عدم مساوات کو مزید گہرا کر دیا ہے جس کے باعث کروڑوں لوگ مہنگائی، موسمیاتی اثرات اور روزگار کے نقصان کے خطرے سے دوچار ہیں۔

خلیجی ممالک طویل عرصے سے پاکستان کی اضافی افرادی قوت کے لیے ایک محفوظ راستہ رہے ہیں، لیکن اب یہ سہارا بھی تیزی سے غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔

کیوں کہ جی سی سی ممالک میں مقامی نوجوان آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس لیے غیر ملکی ورکرز کی پہلے جیسی مستقل مانگ پر اب ہمیشہ کے لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ معیشتیں نہ صرف اپنی لاکھوں نوجوان آبادی کو روزگار دینے کی کوشش کر رہی ہیں، بلکہ وہ اب ایسے شعبوں کی طرف بڑھ رہی ہیں جن میں زیادہ قدر کا اضافہ ہوتا ہے اور جن کے لیے جدید مہارتوں اور تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے جو پاکستانی مزدور، ناکافی فنڈنگ والے تعلیمی نظام کے باعث، اکثر نہیں رکھتے۔

سعودی عرب نے اپنی غربت کی شرح 18.2 فیصد سے کم کر کے 2021 تک 13.6 فیصد کر لی۔ یہ کامیابی آمدنی کے ذرائع متنوع بنانے اور مقامی مہارتوں میں سرمایہ کاری سے حاصل ہوئی، نہ کہ غیر ملکی ورکرز کے لیے مواقع بڑھا کر۔

اسی طرح خلیجی ممالک میں مقیم 20 سے 30 لاکھ پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر عارضی ریلیف تو فراہم کرتی ہیں لیکن ان کے معیشت پر منفی اثرات ہمیشہ نمایاں رہے یعنی یہ رقم زیادہ تر ملک میں کھپت اور جائیداد کی خرید و فروخت پر صرف ہوتی ہے اور لیکن شاذ و نادر ہی پیداواری سرمایہ کاری یا پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اس غربت کے جال سے کیسے نکل سکتا ہے؟ اس کا حل کوئی جادوئی نسخہ نہیں، بلکہ فوری ریلیف اور ساختی اصلاحات کو یکجا کرنے والی ایک جامع حکمت عملی ہے، جس میں کامیاب پڑوسی ممالک کے تجربات سے بھی سیکھا جانا چاہیے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انسانی وسائل میں سرمایہ کاری کی جائے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کو انڈیا کی طرح مشروط کیش ٹرانسفر کے ساتھ وسعت دینا ان 26 لاکھ بچوں کو دوبارہ سکولوں میں لا سکتا ہے جو اس وقت تعلیم سے محروم ہیں۔

پرائیویٹ سکولوں کے لیے واؤچرز اور دیہی بنیادی ڈھانچے کے لیے پبلک پرائیویٹ شراکت داری سپلائی کے خلا کو پورا کر سکتی ہے۔ بنگلہ دیش طرز کے موبائل خواندگی پروگرام، خاص طور پر دیہی خواتین کے لیے، نمایاں سماجی فوائد لا سکتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ مالی گنجائش پیدا کی جائے، ٹیکس نیٹ کو غیر ٹیکس شدہ شعبوں تک بڑھانا اہم وسائل فراہم کر سکتا ہے۔ قرضوں کی تنظیم نو، جو ممکنہ طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ذریعے ہو سکتی ہے، بھی اتنی ہی ضروری ہے۔

پاکستان کے غیر ملکی قرضے، جو تقریباً 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، ان کی ادائیگی ملک کے بجٹ کا نصف حصہ لے لیتی ہے، جس سے تعلیم اور صحت کے شعبے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

صورت حال واضح ہے یعنی برآمدات تقریباً 30 ارب ڈالر پر جمود کا شکار ہیں، جبکہ مسلسل دوہرے خسارے قرضوں پر انحصار کو بڑھاتے ہیں اور غربت کا مسئلہ مزید گھمبیر بنا رہے ہیں۔

بینرجی اور ڈفلو اپنی کتاب ’پور اکنامکس‘ میں دلیل دیتے ہیں کہ قرضوں کی تنظیم نو سے بنیادی ڈھانچے اور مہارتوں کی تربیت کے لیے وسائل میسر آ سکتے ہیں، جس سے پاکستان کی نوجوان آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

تیسرے نمبر پر مزدوروں کی منڈی میں اصلاحات لائی جائیں۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے آسان قواعد و ضوابط اور کپڑے یا زرعی کاروبار جیسے مزدور طلب شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت کو یکجا کیا جائے، تو وہ 40 فیصد ناخواندہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔

 

آخر میں اگر پاکستان خلیجی دولت سے صحیح فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے محض مزدور بھیجنے والا ملک نہیں، بلکہ سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مقام بننا ہو گا۔

جیسے جیسے خلیجی ممالک میں مہارت کی طلب بڑھتی جائے گی اور مزدوروں کی منڈیاں محدود ہوتی جائیں گی، پاکستان اپنی بے روزگاری کو برآمد کرنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتا۔

مضبوط پالیسیوں، انسانی وسائل میں سرمایہ کاری اور ایسی ساختی اصلاحات کے ذریعے ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا کوئی متبادل نہیں، جو ترسیلات زر کو محض سہارا بننے کے بجائے ترقی کا محرک بنا سکیں۔

وقت معاف نہیں کرتا مگر راستے بالکل واضح ہیں۔ اگر ٹھوس اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان میں غربت بڑھ جائے گی گا اور ’استحکام‘ جمود کے لیے محض کوڈ ورڈ رہ جائے گا۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جرات مندانہ اقدامات کا متحمل ہو سکتا ہے یا پھر کچھ نہ کرنے کی قیمت برداشت کر سکتا ہے؟

بشکریہ عرب نیوز۔

جاوید حسن نے لندن، ہانگ کانگ اور کراچی میں این جی اوز اور فار پرافٹ شعبوں میں کام کر چکے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @‌javedhassan  کے نام سے لکھتے ہیں۔

نوٹ: اس کالم میں اظہار خیال مصنف کے ذاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ انڈپینڈنٹ اردو کی اداراتی پالیسی کی عکاسی کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر