فقط چند برس قبل جب میں نے ’پانی مر رہا ہے‘ لکھی تو مجھے اندازہ نہ تھا کہ پانی اتنی تیزی سے مرے گا۔ موسمیاتی تبدیلی اس وقت پوری دنیا پہ اپنے بھیانک اثرات کے ساتھ چھائی ہوئی ہے۔
گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ہوا میں نمی کا تناسب اور زمینی درجہ حرارت بڑھنے سے زمین کا واٹر سائیکل بدل رہا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کی وادیوں میں آباد انسان اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تبدیلی کی وجہ، انسانی سرگرمی بھی ہے اور زمین کے اپنے موسمیاتی ڈھنگ بھی۔ انڈیا، چین اور پاکستان تین بڑے ممالک، جہاں دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ رہائش پذیر ہے، اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
دنیا کے کئی بڑے شہر چند ہی برس کے اندر سمندر میں ڈوب چکے ہوں گے۔ قطبین کی برف نہایت تیزی سے پگھل کے کھارے پانی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ سطح سمندر بلند ہو رہی ہے۔
دنیا میں بنائے گئے مصنوعی پانی کے ذخیروں نے قطبین کا تناسب بگاڑ دیا ہے۔ یہ ذخیرے زلزلے کی زد میں آکر ٹوٹیں گے کیونکہ زمین اپنے قطبین کا توازن بہرصورت درست کرنے کی کوشش کرے گی۔
سیلاب، زلزلے، آگ، پراسرار وائرس اور ممکنہ جنگیں، آنے والے وقت میں دنیا کا نصیب نظر آتے ہیں۔ انسانی ترقی دراصل نسل انسانی کے تنزل کی پہلی سیڑھی تھی۔
صنعتی ترقی نے انسان اور فطرت کے درمیان موجود توازن کو برباد کر دیا۔ آلودگی کے جس جن سے ہم جھوجھ رہے تھے، فطرت نے اس جن کو ختم کرنے کی ٹھانی۔
زمین نامی اس سیارے کا اپنا مخصوص ماحول تھا۔ انسانی دراندازی نے جب وہ ماحول بدلا تو فطرت نے اپنا کام شروع کر دیا۔
چند روز پہلے انڈیا اور پاکستان نے انگریز سے آزادی ملنے کا جشن ایسے منایا کہ لگا یہ دن دراصل دونوں ملکوں کی ایک دوسرے پہ فتح کا دن تھا۔
اسی جنگ کے دوران سندھ طاس منصوبے کو معطل کرنے کی باتیں بھی ہوئیں۔ مودی سرکار نے سارا پانی روکنے کے عزم کا اظہار کیا، یہاں سے بلاول نے چھ دریا لینے کی دھمکی دی، جواب میں متھن چکرورتی نے مکا دکھایا۔
مورکھو! دریا، سمندر، زمین پہاڑ کیا کسی کے باپ کے ہیں جو کوئی چھین لے گا، کوئی روک لے گا، کوئی لے کے بھاگ جائے گا؟ سیاسی انتظام کے لیے بنائی جانے والی سرحدیں کسی کو یہ حق نہیں دیتیں کہ وہ مخلوقات اور ماحول کے ساتھ حد سے بڑھ کے چھیڑ چھاڑ کرے۔
گلیشیئرز کا پگھلنا، بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں، پہاڑوں کا اپنی جگہ سے کھسکنا ابھی جاری ہے۔ جنگلوں میں آگ بھی لگی ہوئی ہے اور انسانوں کا یہ حال ہے کہ آج بھی وہی تیل، گیس اور انسانی وسائل کی تلاش میں زبان لٹکائے ہانپتے پھر رہے ہیں۔
اس وقت انڈیا، پاکستان اور چین کو خاص طور پہ اور باقی دنیا کو بھی ہنگامی بنیادوں پہ اس موسمیاتی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے سر جوڑ کے بیٹھنا پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مسئلے کا حل مسخروں کو وزارتیں دینے اور اے آئی سے فائلیں بنانے والے کلرکوں اور بیرونی دوروں کے بھوکے بیوروکریٹس کی کمیٹیاں بنانے اور ان پہ کسی ریٹائرڈ یا حاضر سروس کو بٹھانے اور اس بہانے ان کی بیگمات کو گپیں لگانے کا موقع دینے میں پنہاں نہیں ہے۔
انسان کو بہت پیچھے جا کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا، فطرت نے اپنے نظام میں خرابی کرنے والے بونے کو تاڑ لیا ہے۔ صلح کر لے تو بچ جائے گا ورنہ ہر صحیفے میں یہ ہی مرقوم ہے کہ ایک دن پہاڑ روئی کی طرح اڑ جائیں گے، تندور سے پانی ابلے گا، آسمان سے مینہہ برسے گا اور جب یہ جھڑی رکے گی تو سب سرکش اور وہ بھی جو سرکش نہیں تھے مگر خاموش رہے، غرق ہو چکے ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلی کو سمجھ کر اس کے ساتھ صلح کر کے چلنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ پانی میدانوں میں اتر آئے گا اور پاکستان کے جنوبی اور مشرقی علاقے اس سے متاثر ہوں گے۔
ہر جگہ کالونی کاٹنے والوں کو ابوذر مادھو جیسے دریا دوستوں کی سنگت میں بیٹھنے اور زمین کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر بات یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھائی جاتی، کچھ باتیں سمجھنے کے لیے، ویرانوں کی آواز اور دریا کی بولی سمجھنی پڑتی ہے۔
گردن کے سریے اور کالر کے کلف کو نرم کیجیے، اس سے بڑی ایمرجنسی کوئی نہیں ہے۔ اسی پانی کے کناروں پہ تہذیبیں بسیں اور یہی پانی ان تہذیبوں کو نگل گیا۔
یہ مسئلہ اس وقت پوری دنیا کا ہے، مگر کسی ایک ملک کو آواز اٹھانی ہو گی اور اسے ایک عالمی تحریک بنانا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔