حکام نے بتایا کہ پاکستان کے شمالی حصے میں شدید مون سون بارشوں اور بادل پھٹنے کے واقعات کے باعث آنے والے اچانک سیلابوں سے گذشتہ 48 گھنٹوں میں کم از کم 344 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ریسکیو اہلکار تباہ حال علاقوں میں ملبے سے لاشیں نکالنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
خیبر پختونخوا کی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق زیادہ تر اموات (یعنی 328) صوبے خیبر پختونخوا میں ہوئیں جہاں اکثر افراد اچانک سیلاب اور گھروں کے گرنے سے مارے گئے جبکہ کم از کم 120 دیگر زخمی ہیں۔
صوبائی ریسکیو ایجنسی نے بتایا کہ تقریباً دو ہزار اہلکار لاشوں کو ملبے سے نکالنے اور امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ تاہم بارش ان نو متاثرہ اضلاع میں امدادی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
صوبائی حکومت نے بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کے پہاڑی اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا ہے۔
خیبر پختونخوا ریسکیو ایجنسی کے ترجمان بلال احمد فیضی نے کہا ’شدید بارش، مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں کے بہہ جانے کی وجہ سے امداد پہنچانے میں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں، خاص طور پر بھاری مشینری اور ایمبولینسیں منتقل کرنے میں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’زیادہ تر علاقوں میں سڑکیں بند ہونے کے باعث ریسکیو اہلکار پیدل دور دراز علاقوں میں آپریشن کر رہے ہیں۔
’وہ زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بہت کم لوگ اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں کیونکہ ان کے رشتہ دار یا پیارے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔‘
محکمہ موسمیات نے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں شدید بارش کا الرٹ جاری کیا ہے اور عوام کو ’احتیاطی تدابیر‘ اختیار کرنے کی ہدایت دی ہے۔
قومی ڈیزاسٹر اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مزید 11 افراد اور گلگت بلتستان میں بھی پانچ افراد بارشوں کے دوران مارے گئے۔
مزید پانچ افراد، جن میں دو پائلٹ بھی شامل تھے، اس وقت مارے ہوئے جب جمعے کو ایک سرکاری ہیلی کاپٹر خراب موسم کے باعث امدادی مشن کے دوران گر کر تباہ ہو گیا۔
خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ نے آفیشل فیس بک پیج پر جاری بیان میں کہا کہ ’حکومت خیبرپختونخوا نے ضلع بونیر، باجوڑ، بٹگرام اور دیگر متاثرہ اضلاع میں آنے والے فلیش فلڈز اور کلاؤڈ برسٹ کے واقعات کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے بڑے نقصان پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہ صوبے بھر میں بروز ہفتہ 16 اگست، 2025 کو یومِ سوگ کا اعلان کیا ہے۔‘
اپنی ایک اور پوسٹ میں انہوں نے ریسکیو سرگرمیوں میں مصروف ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جان سے جانے والے پانچ افراد کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
پہاڑی علاقوں میں سیاحت محدود کرنے کی ایڈوائزری
این ڈی ایم اے کے میڈیا ونگ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مون سون کی شدت کے پیش نظر پہاڑی علاقوں میں سیاحت محدود کرنے کی ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق آفات سے متاثرہ علاقوں میں عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سیاحتی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی اور متعلقہ اداروں کو اس سلسلے میں فوری اقدامات کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
اتھارٹی نے کہا کہ مون سون سپیلز کے دوران خطرناک مقامات پر عوامی آمدورفت محدود کی جائے اور ضرورت پڑنے پر دفعہ 144 کے تحت سیاحتی پابندیاں بھی نافذ کی جا سکتی ہیں۔
عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کریں جبکہ سیاحتی مقامات پر قانون نافذ کرنے والے ادارے پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں۔
’شدید صدمے کی کیفیت‘
مون سون کا موسم جنوبی ایشیا میں سالانہ بارشوں کا تقریباً تین چوتھائی حصہ فراہم کرتا ہے جو زراعت اور غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے، مگر یہ تباہی بھی ساتھ لاتا ہے۔
اس دوران لینڈ سلائیڈنگ اور اچانک سیلاب کے واقعات عام ہیں جبکہ یہ سلسلہ عموماً جون میں شروع ہو کر ستمبر کے آخر تک جاری رہتا ہے۔
قومی ڈیزاسٹر ایجنسی کے نمائندے سید محمد طیّب شاہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سال مون سون معمول سے پہلے شروع ہوا ہے اور توقع ہے کہ معمول سے زیادہ دیر تک چلے گا۔
وادی سوات میں سڑکیں کیچڑ آلود پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں، بجلی کے کھمبے زمین بوس ہیں اور گاڑیاں ملبے میں دبی ہوئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بونیر کے ایک اور رہائشی نے بتایا کہ لوگ پوری رات ملبے میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔
سیف اللہ خان نامی معلم نے اے ایف پی کو بتایا ’پورا علاقہ شدید صدمے کی کیفیت میں ہے۔ ہمیں ابھی تک واضح اندازہ نہیں کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں کون زندہ ہے اور کون مر گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’میں اپنے ہی شاگرد بچوں کی لاشیں نکالنے میں مدد کر رہا ہوں اور مسلسل سوچ رہا ہوں کہ قدرت نے ان معصوم بچوں پر یہ کیسا امتحان مسلط کیا ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے جمعے کو ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ موجودہ ہنگامی صورت حال میں ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے تمام متعلقہ ادارے ریسکیو اور ریلیف کارروائیوں میں مصروف ہیں اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں صوبائی حکومت اپنے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور قدرتی آفات سے ہونے والے تمام نقصانات کا مکمل ازالہ کیا جائے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ایک ہنگامی اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے، انہیں ریسکیو و ریلیف آپریشن میں تمام تر تعاون فراہم کرنے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں اور اس کی آبادی کو شدید موسمی واقعات کا سامنا بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ کرنا پڑ رہا ہے۔
حکام کے مطابق اس سال موسمِ گرما کے آغاز سے اب تک جاری غیر معمولی مون سون بارشوں کے باعث 500 سے زیادہ افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں 159 بچے بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل 2022 کے مون سون سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو ڈبو دیا تھا اور تقریباً 1,700 اموات ہوئی تھیں۔