پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک بھر میں مون سون سیزن کے دوران طوفانی بارشوں سے 266 اموات ہو چکی ہیں۔ حالیہ مون سون سیزن کو ماہرین ’غیر معمولی‘ قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ملک میں مون سون سیزن کے دوران بارشوں میں انتہائی شدت کے ساتھ اب ان کا حجم بھی بڑھ گیا ہے اور ان علاقوں میں بھی مون سون بارشیں ہونے لگیں ہیں، جہاں ماضی میں یہ نہ ہونے کے برابر تھیں۔
مون سون کی بارشوں میں شدت کے باعث ملک میں سیلاب، اچانک سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیئل جھیلیں پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ انسانی آبادیوں اور کھڑی فصلوں کو بھی شدید نقصان کا سامنا ہے۔
محکمہ موسمیات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مون سون سیزن کے دوران رواں برس 25 جولائی تک ملک میں معمول سے 53 فیصد زائد بارشیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ شدید بارشوں، سیلابی ریلوں اور دیگر واقعات میں اب 266 اموات ہو چکی ہیں۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کہتے ہیں کہ اب مون سون بارشوں میں شدت کے باعث ندی نالوں میں طغیانی کے ساتھ فلیش فلڈ اور راستے بند ہونا معمول بن گئے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’مون سون بارشوں کی شدت میں اضافے کے ساتھ اوسط بارش میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مون سون اب ان علاقوں میں بھی بارشوں کا باعث بن رہا ہے، جہاں پہلے مون سون کی بارش نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ موسمیات کے مطابق جون 2022 میں بھی ملک میں مون سون بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے 1,739 افراد کی اموات ہوئیں اور ملک کو 15 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید مون سون بارشوں کے باعث 2016، 2020 اور 2024 میں بھی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح ورلڈ بینک کے اعداوشمار کے مطابق 2010 میں پاکستان میں شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے باعث 17 سو سے زائد افراد کی اموات ہوئیں، دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے، 11 لاکھ گھر مکمل تباہ ہوئے، 50 لاکھ سے زائد جانور مر گئے اور ملک کے کل رقبے کا 20 فیصد متاثر ہوا، جس سے مجموعی طور پر پاکستان کو تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں کہ مون سون کا دارومدار سمندر اور خشکی کے درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔ ’خشکی پر درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے اور زمین کی نسبت سمندر کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں سمندر سے ہوائیں خشکی کی طرف چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندر اور زمین کا درجہ حرارت نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ دونوں کے درجہ حرارت میں نمایاں فرق بھی دیکھا جا رہا ہے، جس کے باعث مون سون میں شدت آتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں کچھ عرصے سے مون سون میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔‘
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’خاص طور پر پاکستان میں گذشتہ ایک ڈیڑھ دہائی سے مون سون کی شدید بارشیں دیکھی گئی ہیں۔ پاکستان میں 2010، 2016، 2022 اور 2024 میں شدید مون سون بارشیں ہوئیں، جس کے باعث سیلاب عام ہوتا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ موسمی تبدیلی کے باعث نہ صرف مون سون کی بارشوں میں شدت آ رہی ہے، بلکہ ان کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اب مون سون کی بارشیں ان علاقوں تک پھیل گئی ہیں، جہاں ماضی میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔
اگر پاکستان میں شمال سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ گلگت اور چترال میں تاریخی طور پر مون سون بارشیں نہیں ہوا کرتی تھیں، صرف موسمِ سرما میں بارش یا برف باری ہوا کرتی تھی، مگر اب ان علاقوں میں مون سون کی بارشیں معمول ہوگئی ہیں۔
موسمِ گرما میں جیسے ہی مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوتا ہے تو گلگت اور چترال سمیت شمالی علاقہ جات میں مون سون کی بارشیں بھی برستی ہیں، حتیٰ کہ گلیشیئرز پر مون سون بارشیں برسنے لگی ہیں، جس کے باعث گلاف یعنی گلیشیئر پگھلنے کے باعث بننے والی گلیشیئل جھیلوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق پاکستان کے جنوب میں تاریخی طور پر انتہائی خشک سالی کا شکار رہنے والے ریگستان بشمول صحرائے تھر اور پنجاب کے صحرائے چولستان کے علاوہ ہمیشہ خشک رہنے والا بلوچستان، جہاں ماضی میں مون سون کی بارشیں شاذ و نادر ہوا کرتی تھیں، وہاں اب سال 2000 سے خشک اور بنجر علاقوں میں ہر سال مون سون بارشیں انتہائی شدت سے ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ان علاقوں میں چونکہ تاریخی طور پر مون سون نہیں ہوا کرتا تھا، اس لیے ان علاقوں کے مکینوں کو تاحال شدید بارشوں کی توقع نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں مون سون کی شدید بارشوں کے باعث شدید نقصان کا سامنا کرنا پرٹا ہے۔‘
بقول ڈاکٹر غلام رسول: ’ان علاقوں کے مکنیوں کو اندازہ نہیں ہوتا اور وہ لوگ پانی کی گزرگاہوں میں گھر بنا لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہمیشہ خشک سالی سے دوچار ان علاقوں میں شدید مون سون بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں کی وجہ سے نہ صرف مویشی بلکہ انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔‘
وہ موسمی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی اطلاع کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے (این ڈی ایم اے)، صوبائی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے (پی ڈی ایم ایز) اور محکمہ موسمیات کی ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہے کہ ایسے علاقوں کے رہائشیوں کو آنے والی قدرتی آفات کی پہلے سے اطلاع دینے کے لیے کوشاں رہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کو جانی و مالی نقصان سے بچایا جا سکے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مگر پاکستان جیسے ممالک میں وسائل کی کمی ہے۔ لوگ قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع کے باوجود حکومتی اداروں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ان علاقوں کو خالی کرنے کی بجائے وہیں رہتے ہیں۔ ایسے میں مقامی اداروں کو چاہیے کہ وہ حکومتی احکامات پر عمل کرواتے ہوئے آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کروائے۔‘
شدید مون سون سے شمالی علاقہ جات کی سیاحت کو خطرات
پاکستان کے میدانی علاقوں میں موسمِ گرما کے دوران شدید درجہ حرارت کے نتیجے میں لوگ بڑی تعداد میں سیاحت کے لیے ملک کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں۔
یہ علاقے اپنے بہتر موسم، پہاڑوں اور جنگلات کے باعث سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ان علاقوں میں سیاحت کے آغاز کے ساتھ مون سون کی شدید بارشیں بھی عام ہوتی جا رہی ہیں، جس کے باعث کئی حادثات رونما ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’اس جدید دور میں سائنس نے موسم کے متعلق اتنی ترقی کرلی ہے کہ شدید بارشوں کے بارے میں تین دن قبل پیش گوئی کی جا سکے، اس لیے ان علاقوں میں سیاحت کو مکمل طور پر بند کرنے بجائے موسم کی پیشگی اطلاع دی جائے کہ فلاں علاقے میں فلاں دن شدید بارش ہوسکتی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’بارش کے باعث سیلاب اور سیلابی ریلے آسکتے ہیں، لینڈ سلائیڈنگ اور گلوف کے واقعات ہو سکتے ہیں اور راستے بند ہونے کا امکان ہے۔ اس قسم کی اطلاع ملنے پر یا تو سیاح خود ہی وہ علاقہ خالی کر دیں یا ہوٹل تک خود کو محدود رکھیں تاکہ جانی نقصان اور پریشانی سے بچا جاسکے۔‘
ڈاکٹر غلام رسول نے کہا: ’پیشگی اطلاع کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ سیاح اپنے سفر کو محفوظ انداز میں مکمل کرسکیں۔‘