ٹرمپ کا غزہ منصوبہ، دوسرے مرحلے پر کام نہیں ہو رہا؟

اسرائیل کا دورہ کرنے والے اعلیٰ عہدے دار اور خصوصی ایلچی اب تک کوئی قابلِ ذکر پیش رفت حاصل نہیں کر سکے۔

ایک شخص پانچ نومبر، 2025 کو غزہ شہر کے علاقے الرمل میں ایک سکول میں قائم بے گھر فلسطینیوں کے کیمپ میں بچوں کے ساتھ بیٹھا ہے (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے پر کام نہیں ہو رہا اور بظاہر مستقبل میں بھی نہیں ہو گا۔ 

اسرائیل کا دورہ کرنے والی اعلیٰ سطح کی امریکی شخصیات، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور صدر کے داماد اور خصوصی ایلچی جیرڈ کشنر شامل ہیں، کوئی پیش رفت حاصل نہ کر سکے۔ 

یہ صورت حال پہلے مرحلے سے مختلف ہے، جسے اگرچہ دو سال کی تکلیف دہ بےعملی کے بعد نافذ کیا گیا، مگر نسبتاََ بلارکاوٹ نافذ کر لیا گیا۔ 

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے مرحلے نے فریقین کا کم از کم ایک اہم مقصد پورا کیا، یعنی قیدیوں کی رہائی اور نسل کشی روکنا اور اس کے نفاذ کے لیے امریکہ کا شدید دباؤ تھا۔

شدید باہمی اختلافات کے باوجود فلسطینی گروپ اور بہت سی عرب حکومتیں، خاص طور پر مصر، اس منصوبے کے دوسرے مرحلے سے جڑے تین مسائل پر متفق ہیں۔ 

پہلا مسئلہ یہ کہ یہ منصوبہ مقبوضہ علاقوں کے دو جغرافیائی حصّوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کو پیش رفت، پالیسیوں اور قیادت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔

یہ علیحدگی اسرائیل کے اس طرزِ عمل کی تائید کرتی ہے، جو فلسطینی سیاست کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہے۔ 

فلسطینی توقع کرتے ہیں کہ دونوں علاقے ایک ہی انتظامیہ کے تحت آئیں یا کم از کم باہم منسلک رہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو غیر ملکی سرپرستی میں دے رہا ہے۔ یہ براہ راست فلسطینی آزادی اور خود ارادیت کی خواہش کے منافی ہے۔ 

یہ فلسطینی جدوجہد کو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی بجائے ایک اور غیر ملکی فوج یا فوجوں کے زیرِ اختیار چھوڑ رہی ہے، جس کا کوئی واضح اختتام نہیں۔ 

اس کے علاوہ مصر محتاط معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سرحد پر غیر ملکی فوج موجود ہو اور اس لیے وہ نفاذ سے پہلے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے نے، جسے ٹرمپ کی اسرائیلی کنیسٹ کی تقریب میں دیے گئے متنازع خطاب نے واضح کیا، غزہ کے بحران کی سیاسی فطرت کو نظرانداز کیا اور اسے صرف انسانی اور اقتصادی بحران کے طور پر پیش کیا۔ 

یہ بہت زیادہ اہم ہوتا کہ منصوبہ بحران کو اس سیاسی تنازعے کے حصّے کے طور پر سامنے لاتا، جس کا حل 1967 کے بعد کے اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں مضمر ہے اور اس طرح فلسطینیوں کو آزادی، خودارادیت اور خود مختاری دینے کا راستہ ہموار ہوتا۔

اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ غزہ میں وہی ماڈل نافذ کرے جو اس نے مغربی کنارے میں تیار کیا، البتہ یہ شرط لگا کر کہ فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہ ہو۔ 

اس ماڈل کا مقصد اسرائیلی قبضہ کرنے والی فورسز اور پی اے کے مابین ذمہ داریوں کو تقسیم کرنا ہے۔

مغربی کنارے میں اسرائیل صرف خود، یکطرفہ اور جبراً اپنی سرحدوں، سرزمین اور سلامتی کا کنٹرول رکھتا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مرحلے کے بعد غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی نصف سے زیادہ زمین پر موجود ہیں، جو ایک نئی ’زرد لکیر‘ بناتا ہے۔

اسی دوران، مغربی کنارے میں اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو تعلیم، صحت، قانون و نظم، میونسپل خدمات وغیرہ کی ذمہ داری دے رہا ہے۔

فرق یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں کسی بھی کردار کی اجازت نہیں دے رہا بلکہ انتظامی امور کو نامعلوم بین الاقوامی و مقامی امتزاج کے سپرد کر رہا ہے۔

امریکی انتظامیہ کا یہ طریقہ کہ وہ بحران کو مغربی کنارے، فلسطینی سیاسی حقوق، دو ریاستی حل اور حتیٰ کہ فلسطینی سیاسی قیادت کا کوئی ذکر کیے بغیر حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ تاثر دیتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد فلسطینی سیاسی حقوق اور ایک آزاد ریاست کے حق میں حالیہ بین الاقوامی رجحان کا مقابلہ کرنا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ رجحان ستمبر میں یورپی ریاستوں کے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی لہر اور بے نظیر بین الاقوامی یکجہتی میں سامنے آیا تھا۔ 

بعض ریاستیں اسرائیل تک ہتھیاروں کی ترسیل روک رہی ہیں اور ملک کو ٹیکنالوجی شعبے کی کسادبازاری اور بیرونی سرمایہ کاری کی واپسی کا سامنا ہے۔

اسرائیل کا ایک انکاری المیہ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے بغیر، جنہیں عرب لیگ اور اقوام متحدہ نے فلسطینی عوام کی نمائندہ جائز تنظیم قرار دیا ہے، اسے غزہ میں غیر عسکری ذمہ داریاں سونپنے کے لیے کوئی سنجیدہ تیسرہ فریق نہیں ملے گا۔ 

وہ فریق جائز نہیں ہوگا اور صرف اسرائیلی غیرقانونی فوجی موجودگی اور قبضے کو مکمل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔

ان دو ہولناک برسوں سے حاصل ہونے والے سبق یہ ہیں کہ فلسطین کے سیاسی حقوق نظر انداز کرنے سے وہ ختم نہیں ہو جاتے۔ 

فلسطینیوں کی زمین اور مقدّس مقامات سے باہم وابستگی اور اسرائیل کو بین­ الاقوامی قانون سے مستثنیٰ سمجھنے کا رویہ معمول نہیں بن سکتا۔ 

اسرائیل کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے اور عالمی سطح پر بھی۔

فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو کمزور کرنا، نہ کہ مضبوط بنانا، جیسا کہ اسرائیل کر رہا ہے، صرف انتہاپسندی کو بڑھا سکتا ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ 

اسرائیل کو اپنی مرضی پر چھوڑنے کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں بہت تیزی سے وہ تغیرات رونما ہو رہے ہیں جو دو ریاستی حل کی کوئی جھلک نہیں چھوڑ رہے، بلکہ ایک ریاستی نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کا تیزی سے ابھرتا ہوا منظرنامہ اور مسلسل سفاکی و تشدد کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

غسان الخطيب بيرزيت یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعہ جات کے لیکچرر ہیں اور انہوں نے فلسطینی اتھارٹی میں متعدد عہدے سنبھالے ہیں۔ انہوں نے یروشلم میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز سینٹر کی بنیاد رکھی اور اس کے ڈائریکٹر رہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ