غزہ میں جارحیت اورنسل کشی کو دو سال ہونے کو آ رہے ہیں۔ غزہ کی پامال بستی میں صرف فلسطینیوں کے لاشے ہی نہیں پڑے، وہاں چھ کروڑ ٹن کے اس ملبے میں انٹرنیشنل لا کا وجود بھی ٹکڑوں میں بٹا پڑا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ان دو سالوں میں اسرائیلی جرائم کی فہرست بہت خوف ناک ہے۔ 66،414 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ 1،67،000 افراد زخمی ہیں۔ 20 ہزار بچے اس وحشت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔
ہر منٹ میں ایک بچہ قتل ہو رہا ہے۔ طبی عملے کے 1580 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد مساجد شہید کی جا چکی ہیں۔
یہ ان کے ساتھ ہو رہا ہے جو جینیوا کنونشن کے آرٹیکل 4 کی روشنی میں protected persons ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قابض قوت کے رحم و کرم پر ہیں۔ جiنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 کے مطابق کسی بھی protected persons کو کسی ایسے جرم میں سزا نہیں دی جا سکتی جو اس نے نہ کیا ہو۔ کجا یہ کہ پوری کی پوری آبادی پر آتش و آہن برسا دیا جائے۔
جینیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی کو ’اجتماعی سزا‘ اور اس سے ملتے جلتے خوف زدہ کر دینے والے اقدامات کی اجازت نہیں، لیکن اسرائیل نے غزہ میں ’اجتماعی سزا‘ کے فارمولے کے تحت شہریوں پر گولہ باری اور فضائی حملے کر کے ہنستے بستے شہر کو مقتل بنا دیا ہے۔ یہ نسل کشی ہے اور جنگی جرائم میں شمار ہوتی ہے۔
جینیوا کنونشن کے آرٹیکل 20 کے مطابق protected persons کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی ممانعت ہے۔ یہی اصول 1874 میں برسلز کانفرنس میں بھی وضع کیا جا چکا ہے۔
جینیوا کنونشن کے آرٹیکل 2 کے مطابق بھی انتقامی کارروائیوں کی اجازت نہیں۔ کسی بھی عام شہری کو کسی بھی دوسرے آدمی کے کسی فعل پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ دی جائے گی تو یہ انٹر نیشنل لا کی خلاف ورزی ہو گی۔ جینیوا کنونشن نے اس ’جنگی جرم‘ قرار دے رکھا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں ہسپتالوں کے ساتھ جو کیا وہ مزید بیان کا محتاج نہیں۔ براہ راست ان پر حملے کیے گئے ہیں اور معصوم لاشوں کا انبار لگا دیا گیا۔ ہسپتالوں میں اسرائیلی فوج جا گھسی اور بچے کھچے مریضوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت نے غزہ کے ہسپتالوں کو ڈیتھ زون قرار دے دیا۔ ہسپتالوں کے خلاف ایسی وحشیانہ جارحیت اپنی نوعیت کی واحد واردات ہے۔
جینیوا کنونشن کے آرٹیکل 19 کے مطابق میڈیکل سروس یونٹ پر کسی صورت میں حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ سول آبادی کے تحفظ سے متعلقہ جینیوا کنونشن کے آرٹیکل 16 کے مطابق زخمی اور بیمار خصوصی عزت کے مستحق ہوتے ہیں۔
جینیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 17 کے مطابق مقامی آبادی کے لیے لازم ہو گا کہ وہ زخمیوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کے خلاف اس وجہ سے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
اسرائیل نے جس سفاکی سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا، وہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اب کی صورت حال تو انتہائی تباہ کن ہے، عالم یہ ہے جینیوا میں قائم ادارے یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے مطابق یکم نومبر، 2023 تک اسرائیل غزہ میں جتنا دھماکہ خیز مواد پھینک چکا تھا وہ ہیروشیما پر پھینکے گئے ایٹم بم سے دگنا تھا۔ جب کہ ہیروشیما کا رقبہ 900 مربع کلومیٹر تھا اور اس کے مقابلے میں غزہ کا رقبہ صرف 360 مربع کلومیٹر ہے۔ ( اب اکتوبر 2025 ہے، تباہی کا اندازہ خود لگا لیجیے)۔
شہری آبادی کو نشانہ بنانا جرم ہے۔ سینٹ پیٹرز برگ ڈیکلیئریشن 1868 کے مطابق جنگ کے دوران واحد قانونی ہدف دشمن کی عسکری قوت کو کمزور کرنا ہے۔ سویلین پر حملہ جائز نہیں ہو گا۔ یہی بات جینیوا کنونشن ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے ارٹیکل 52 کی ذیلی دفعہ 2 میں بھی کہی گئی ہے۔
اسی طرح ہیگ رُولز آف ایئر وارفیئر کے آرٹیکل 22 کے مطابق شہری آبادی کو خوف زدہ کرنے یا نجی املاک کو تباہ کرنے کے لیے، جن کی نوعیت عسکری نہ ہو بمباری کرنا ممنوع ہے ۔
ہیگ کنونشن IV کے آرٹیکل 25 کے مطابق کسی بھی ذریعے سے قصبوں، دیہاتوں، رہائشی جگہوں پر حملہ یا بمباری منع ہے۔ لیگ آف نیشنز نے 30 ستمبرم 1938 کو ایک متفقہ قرارداد میں قرار دیا کہ شہری آبادی پر حملہ غیر قانونی ہے۔
کسٹمری انٹر نیشنل لا، سب سے موثر اور طاقتور اصولوں کا مجموعہ ہے اور چاہے کوئی ملک ان کی توثیق کرے یا نہ کرے، ان کی پابندی سب پر لازم ہے۔ کسٹمری انٹرنیشنل لا کے چند اصول ایسے ہیں جو ہر وقت ہر تنازعے میں خود بخود لاگو سمجھے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق حملوں کا نشانہ صرف عسکری ہدف ہو سکتا ہے، شہری آبادی پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق رکھنا لازمی ہے، شہریوں کی املاک تباہ نہیں کی جا سکتیں اور بلا امتیاز حملے نہیں کیے جا سکتے۔
آٹھ اگست، 1945 کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، شمالی آئرلینڈ اور سوویت سوشلسٹ ری پبلک حکومتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں تشکیل شدہ انٹر نیشنل ملٹری ٹربیونل نے جنگی جرائم کی وضاحت کرتے ہوئے طے کیا کہ کسٹمری انٹرنیشنل لا کی خلاف ورزی جنگی جرم تصور ہو گی۔
جنرل اسمبلی کی قرارداد 3314 میں Definition of Aggression کے آرٹیکل 3 کے مطابق کسی دوسری ریاست پر حملہ کرنا، وہاں قبضہ کر لینا، چاہے یہ قبضہ عارضی ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے ملک کے کسی حصے کو اپنا حصہ بنا لینا، کسی دوسرے ملک پر بمباری کرنا، اس کی سرزمین پر اسلحہ استعمال کرنا، اس کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کرنا، یہ سب جارحیت میں آتا ہے۔
آرٹیکل 5 کے مطابق جارحیت بین الاقوامی امن کے خلاف جرم ہے اور اس سے نبٹنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ جارحیت کی شکل میں کسی علاقے پر قبضے یا اس مقبوضہ علاقے سے حاصل کردہ کسی فائدے کو جائز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ اسرائیل کا سارا سیاسی بیانیہ ہی غزہ کے معاشی امکانات پر قبضے کا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کا دعوی یہ ہے کہ وہ دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے جب کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اس سوال کا جواب بڑی قطعیت کے ساتھ دے رکھا ہے کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل نہیں۔ دفاع کا حق فلسطینیوں کو حاصل ہے جو عشروں سے اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل غزہ میں نئی بستیاں بنانا چاہتا ہے۔ ایک پوری کارپوریٹ ایمپائر زیر بحث ہے۔ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے احکامات دیے جا چکے ہیں۔ انٹر نیشنل لا مگر اسے یہ حق نہیں دیتا کہ وہ غزہ میں اپنی بستیاں قائم کرے اور وہاں اپنی شہری آبادی کو منتقل کرے۔
جینیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس کام کی ممانعت ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق کسی مقبوضہ علاقے سے آبادی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
قابض قوت کو یہ حق بھی نہیں کہ کسی کو جبری طور پر کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے ملک میں دھکیل دے۔ آبادی کے جبری انخلا اور منتقل کرنے پر پابندی ہو گی چاہے اس کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
غزہ پر قبضے سے اسرائیل کی ریاست اس علاقے کی مالک نہیں بن جائے گی۔ قابض قوت کے پاس حق ملکیت نہیں ہوتا۔ یہ اصول 1928 کے معاہدہ پیرس میں طے ہوا، اسی کا اعادہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی وضع کردہ حدود سے باہر اسرائیل کے جتنے قبضے ہیں، اقوام متحدہ نے انہیں ناجائز قرار دے رکھا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا کمیشن UNCCP بھی 1949میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کر چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی پوری تاریخ میں، ساری دنیا نے، ساری جنگوں میں، بین الاقوامی قانون کو اتنا پامال نہیں کیا ہو گا جتنا اکیلے اسرائیل نے صرف ان دو سالوں میں کر دیا ہے۔
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی اسرائیل کے جنگی جرائم کے آگے بے بس ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ بے بسی اور عدم فعالیت بتا رہی ہے کہ دنیا ایک خوفناک بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔
شاید تیسری جنگ عظیم کی طرف۔