صرف دو روز پہلے میں اپنے دوست اور پارلیمانی ساتھی ڈاکٹر پیٹر پرنسلے کے ساتھ اردن اور اسرائیل کے درمیان شیخ حسین بارڈر کراسنگ پر موجود تھا۔
اس سے ایک رات قبل ہی ہم اردن کے دارالحکومت عمان پہنچے تھے اور پھر تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد دریائے اردن کی وادی کے اس مقام پر آئے، جو سطح سمندر سے 413 میٹر نیچے دنیا کی سب سے پست جگہوں میں سے ایک ہے۔ وہاں کی فضا گھٹن زدہ اور شدید گرم تھی اور ماحول میں تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔
اسرائیلی بارڈر فورس ہمیں اندر جانے دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ بالآخر برطانوی وزارت خارجہ اور دیگر سے کئی فون کالز کے بعد اسرائیلی گارڈز نے ہمیں ایسے کاغذات تھما دیے جن میں لکھا تھا کہ ہم ’عوامی حفاظت، سکیورٹی اور نظم‘ کے لیے خطرہ ہیں اور اس بنا پر ہمیں ان کے ملک میں داخلے کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔
کچھ دیر بعد ہمیں ایک بس میں بٹھا کر دوبارہ اردنی سرحد کی طرف بھیج دیا گیا اور ہم واپس عمان لوٹ آئے۔ محض ایک دن بعد ہم دوبارہ برطانیہ پہنچ چکے تھے۔
ہمیں ’کونسل فار عرب برٹش انڈرسٹینڈنگ‘ نے ایک غیر رسمی معلوماتی دورے پر مدعو کیا تھا۔ اس سفر میں مقبوضہ بیت المقدس میں حکام سے ملاقاتیں اور مغربی کنارے کے مختلف صحت کے مراکز کا دورہ شامل تھا۔
دورے کا مقصد یہ تھا کہ زمینی صورت حال کو ہر زاویے سے دیکھ کر ایک منصفانہ اور متوازن رائے قائم کی جائے اور پھر جو حقائق سامنے آئیں اس کی بنیاد پر بہتری کی تجاویز دی جائیں۔ ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ برطانوی وزارت خارجہ کو آگاہ کریں اور سمجھیں کہ آیا ہماری حکومت فلسطینی صحت کی سہولیات کی کسی طرح مدد کر سکتی ہے یا نہیں۔
ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس دورے میں کوئی رکاوٹ آئے گی۔ ہمارے پاس برطانوی سفارت خانے کا دعوت نامہ تھا۔ پہلے بھی کئی ارکانِ پارلیمنٹ مغربی کنارے کا دورہ کر چکے ہیں۔ محض رواں سال جون میں لیبر ارکانِ پارلیمان اسرائیل گئے اور مغربی کنارے تک پہنچے۔ امریکی سینیٹرز کرس وین ہولن اور جیف مرکلی بھی حال ہی میں وہاں گئے۔ ہمارا دورہ غیر سیاسی تھا اور صحت کی سہولتوں پر مرکوز تھا۔
لیکن بدقسمتی سے اسی دوران جب اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری نے یہ قرار دیا کہ اسرائیلی ریاست غزہ میں نسل کشی کے اقدامات کر رہی ہے، اسی ریاست نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ 60 سال سے زیادہ عمر والے دو معمر ڈاکٹرز ’عوامی تحفظ، سکیورٹی اور نظم‘ کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہیں کہ انہیں ملک میں داخل نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
ایک رکن پارلیمان اور ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے میں طویل عرصے سے جنگ کے صحت پر اثرات پر فکرمند ہوں، نہ صرف غزہ میں بلکہ مغربی کنارے میں بھی۔ جب مجھے وہاں کے صحت مراکز دیکھنے کی دعوت ملی تو میں نے لازمی طور پر خود حالات کا مشاہدہ کرنے کی خواہش کی تاکہ بہتر طور پر مسائل کو سمجھ اور دیکھ سکوں کہ کسی قسم کی مدد ممکن ہے یا نہیں۔
مجھے معلوم تھا کہ وہاں صورت حال سنگین ہوگی۔ اسرائیل نے عملاً مغربی کنارے میں صحت پر مالی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل مغربی کنارے میں سامان کی درآمد اور برآمد پر ٹیکس تو وصول کرتا ہے لیکن یہ رقم، جو اس وقت تقریباً 1.2 ارب ڈالر بنتی ہے، فلسطینی ہیلتھ اتھارٹی کو نہیں دیتا تاکہ وہاں کے ہسپتال اور صحت کی سہولیات چل سکیں۔ اس وجہ سے اسرائیل جینیوا کنونشن کی دفعات 55، 56 اور 59 کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جن کے مطابق کوئی بھی قابض طاقت زیر قبضہ علاقے کے شہریوں کی دیکھ بھال کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
عملی طور پر اس کا مطلب ہے کہ طبی عملے، ہسپتالوں اور میڈیکل سپلائرز کو بھاری رقوم دینی باقی ہیں اور پورا صحت کا نظام ٹوٹ پھوٹ کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے باہر سے آنے والی وہ امداد اور سہولت بھی روک رکھی ہے جو اس صورت حال کو کسی حد تک بہتر بنا سکتی تھی۔
اس سے بڑھ کر ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ 2023 سے اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں 1500 سے زائد طبی عملہ مارا جا چکا ہے جبکہ مغربی کنارے میں مزید 25 سے 30 طبی اہلکار قتل کیے گئے ہیں۔ وہ سب اس پالیسی کا نشانہ ہیں جو بظاہر دانستہ طور پر فلسطینیوں کو طبی سہولتوں سے محروم کرنے کے لیے اپنائی گئی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ اسرائیل کا رویہ ایسا ہے جیسے وہ چاہتا ہو کہ فلسطینی زندہ نہ رہ پائیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی ان کی مدد کرے اور یہ تو بالکل نہیں چاہتا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
کالم کے مصنف ڈاکٹر سائمن اوفر سٹراؤڈ سے دارالعوام کے رکن ہیں۔
© The Independent