پانچ عرب ملکوں کی مغربی کنارے کے دورے پر اسرائیلی ’پابندی‘ کی مذمت

پانچ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے طے شدہ مقبوضہ مغربی کنارے کے دورے پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

(بائیں سے)  مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدلطی، اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی، فرانس کے وزیر برائے یورپ اور امور خارجہ جین نول باروٹ اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کی پیرس میں فرانس کے وزیر خارجہ قائد اورسے ایک ملاقات کے دوران تصویر۔ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک وفد کو 31 مئی، 2025 کو اسرائیل نے مقبوضہ مڑبی کنارے کے طے شدہ دورے سے روکا ہے ( ٹریسا سواریز / اے ایف پی)

پانچ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے ہفتے کو اسرائیل کی جانب سے ان کے طے شدہ مقبوضہ مغربی کنارے کے دورے پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اردن کی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ وزرائے خارجہ نے اس اسرائیلی فیصلے کی مذمت کی ہے جس میں وہ اتوار کو رام اللہ میں ریاستِ فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے لیے آنے والے وفد پر پابندی عائد کرے گا۔

اس دورے میں سعودی عرب، مصر، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی شمولیت متوقع تھی، جبکہ ترکی اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل بھی اس کا حصہ بننے والے تھے۔

اسرائیل نے جمعے کی رات دیر گئے اعلان کیا تھا کہ وہ تعاون نہیں کرے گا، جس سے یہ دورہ مؤثر طور پر منسوخ ہو گیا کیونکہ مغربی کنارے کی سرحدیں اور فضائی حدود اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔

ایک بیان میں، جس کے جاری کرنے والے اہلکار کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، بتایا گیا کہ ’عباس رام اللہ میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک اشتعال انگیز ملاقات کی میزبانی کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کو فروغ دیا جا سکے۔

’ایسی ریاست بلاشبہ اسرائیل کی سرزمین کے مرکز میں ایک دہشت گرد ریاست بن جائے گی۔ اسرائیل ایسے اقدامات میں تعاون نہیں کرے گا جو اسے اور اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے جا رہے ہوں۔‘

اگر یہ دورہ مکمل ہوتا تو وفد کے سربراہ شہزادہ فیصل بن فرحان مغربی کنارے کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی وزیر خارجہ بن جاتے۔

اسرائیل نے اس ہفتے مغربی کنارے میں 22 نئی یہودی بستیوں کے قیام کا اعلان کیا ہے، جنہیں اقوام متحدہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتا ہے اور یہ اقدام اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن کے لیے ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

جمعے کو نئی بستی کے ایک مقام کے دورے کے دوران، اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے فلسطینی علاقے میں ’یہودی اسرائیلی ریاست‘ بنانے کا عزم ظاہر کیا۔

انہوں نے ان غیر ملکی ممالک پر تنقید کی جو کاغذ پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک اسرائیلی عہدے دار نے ہفتے کو کہا کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی انتظامی دارالحکومت رام اللہ میں ہونے والی ایک منصوبہ بند ملاقات کی اجازت نہیں دے گا۔

یہ ملاقات ایک بین الاقوامی کانفرنس سے قبل ہونے والی تھی، جس کی مشترکہ صدارت فرانس اور سعودی عرب کریں گے اور جو 17 سے 20 جون کو نیویارک میں فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے پر منعقد کی جائے گی، جس کی اسرائیل سخت مخالفت کرتا ہے۔

اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ رام اللہ کا دورہ کرنے والے عرب عہدیداروں کے وفد جس میں اردن، مصر، سعودی عرب اور بحرین کے وزرائے خارجہ شامل تھے نے ’اسرائیل کی جانب سے دورے کو روکنے کے بعد‘ دورہ موخر کر دیا ہے۔

وزرا کو اردن سے مغربی کنارے جانے کے لیے اسرائیلی منظوری درکار تھی۔

اسرائیل کو اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، جو اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کے حامی ہیں، جس کے تحت ایک آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل کے ساتھ موجود ہو گی۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے جمعے کو کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف ایک ’اخلاقی فریضہ ہے بلکہ سیاسی ضرورت بھی ہے۔‘

وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اس ہفتے مغربی کنارے میں 22 نئی بستیوں کے قیام کے اعلان کو بستیوں کے لیے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ’میکروں کے لیے ایک واضح پیغام‘ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا