ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ کی طرح کم پر قناعت نہ کرتے ہوئے اپنے غزہ امن منصوبے کے 20 نکات یوں پیش کیے، گویا یہ 20 منزلہ شاندار اپارٹمنٹ بلاک ہو، ان کے کیریئر کی سب سے دلیرانہ ’ریئل سٹیٹ‘ ڈیل، جس کے لیے پوری دنیا ان کی منتظر تھی اور جسے گویا صرف وہی تعمیر کر سکتے ہیں۔
بقول ان کے، ’ہزاروں برس‘ کے تنازعے کے بعد امن اب ’انتہائی قریب بلکہ اس سے بھی آگے‘ ہے۔ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’یہ بڑا، بہت بڑا دن ہے، ایک خوبصورت دن‘، بلکہ ’تمدّن کی تاریخ کے ممکنہ طور پر سب سے عظیم دنوں میں سے ایک۔‘
اور پھر اپنے مخصوص ’انکسار‘ کے ساتھ ٹرمپ نے کہا کہ وہ خود ’بورڈ آف پیس‘ کے سربراہ ہوں گے، یہ پہلی بار ہے کہ امریکی صدر نے خود کو کسی غیر موجود ادارے کا چیئرمین نامزد کیا ہے: ’اس کی قیادت کریں گے ایک صاحب جنہیں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کہا جاتا ہے۔۔۔ یہی میں چاہتا ہوں، کچھ اور کام باقی ہے، مگر یہ اتنا اہم ہے کہ میں خود کرنے کو تیار ہوں۔‘
انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ تاریخی یا کم از کم ممکنہ طور پر تاریخی قدم ہے۔ اس پیمانے پر، اتنے ناموافق حالات میں، کامیابی کی کسی بھی امید کے ساتھ اس سے پہلے کسی صدر، حتیٰ کہ جمی کارٹر یا بل کلنٹن نے بھی آغاز نہیں کیا۔ ٹرمپ واقعی ایک بڑے بین الاقوامی اشتراک کو ساتھ لا رہے ہیں، جن میں ٹونی بلیئر بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے جھگڑوں کا ان کے پاس شاید غلط قسم کا وسیع تجربہ ہے۔
ٹونی بلیئر کے مخالف ان پر عراق کی غیر قانونی جنگ کے باعث ’جنگی مجرم‘ ہونے کا ٹھپہ کبھی نہیں اتاریں گے اور بلیئر بھی صدام حسین سے دنیا کو نجات دلانے پر معذرت نہیں کریں گے، مگر یہ سب موجودہ سفارت کاری میں رکاوٹ نہیں بنے گا، وہ اقوامِ متحدہ۔امریکہ۔یورپی یونین۔روس کے ایلچی کے طور پر خطے اور دیگر جگہوں پر صلح جوئی کی کوششیں کریں گے۔
بعید نہیں کہ وقت آنے پر وہ اور ٹرمپ، یا زیادہ منصفانہ بات یہ کہ مجوزہ ’بورڈ آف پیس‘ کے ممتاز ارکان، نوبیل امن انعام کے امیدوار ٹھہریں۔
تاہم سچ پوچھیں تو ہم، خود ٹرمپ کی طرح، ضرورت سے بہت آگے نکل رہے ہیں۔
’بورڈ آف پیس‘ کا باقاعدہ نام بھی طے نہیں ہوا اور خبریں بتاتی ہیں کہ حماس نے منصوبہ دیکھا تک نہیں (اگرچہ بڑا حصہ تو انٹرنیٹ پر موجود ہے)۔ یہ سب کہیں یوں بھی ثابت نہ ہو کہ ٹرمپ اور بن یامین نتن یاہو غزہ کی تباہی کی تکمیل بلکہ پورے فلسطینی وجود، کے جواز کے لیے ایک مفصل داستان سنا رہے ہوں۔ اگر حماس نے منصوبہ رد کیا یا جیسا کہ نتن یاہو نے کہا، اس سے کھیلنے کی کوشش کی، تو اسرائیل کو امریکہ کی کھلی حمایت حاصل ہو گی کہ ’کام تمام کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ نے چاہا تو ضرور کہ حماس کے بڑے پشت پناہ ایران کو ساتھ لے آئیں، مگر نہ ایران شامل ہوا، نہ حزب اللہ۔ حماس سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالے، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے، غزہ کی حکمرانی کے سارے دعوے واپس لے اور عملاً ایک عام جمہوری سیاسی جماعت بن جائے یا اسرائیلی نقطۂ نظر سے زیادہ مناسب حل یہ ہے کہ منظر سے غائب ہو جائے۔
مگر جو دیکھا ہے وہ یہ کہ حماس کو اپنے لوگوں کی اموات، چاہے بمباری سے ہوں یا قحط سے، روک نہیں پاتیں۔ اس لیے غزہ کے شہریوں کی اذیت کو بطور دباؤ استعمال کرنا کارگر نہیں ہو گا۔ سات اکتوبر 2023 سے اب تک یہ حکمتِ عملی ناکام رہی ہے، جب حماس نے اپنے حملوں کے ذریعے اسرائیل کو جنگ پر مجبور کرنے کا مقصد حاصل کر لیا تھا۔
شام ابھی ساتھ نہیں، یمن کے حوثی مسلسل چھیڑ چھاڑ پر آمادہ ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کو بھی اس عمل میں وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کے وہ حق دار ہیں۔
امن کے ہر عمل کی ایک اور بنیادی شرط، چاہے شمالی آئرلینڈ ہو، سابقہ یوگوسلاویہ یا وسطی افریقہ، یہ ہے کہ اس میں اتنا وزن ہو کہ خود کش دھماکوں، قتل و غارت اور جنگی جرائم کے باوجود پٹری سے نہ اترے۔ اگر یروشلم میں ایک خودکش جیکٹ والے کی واردات ہی ٹرمپ کے امن منصوبے کو اڑا دے، کیونکہ باقی فریق فوراً ردعمل میں سب کچھ بڑھا دیں، تو یہ عمل وہیں ٹھپ ہو جائے گا۔ سب کی برداشت کڑی آزمائش سے گزرے گی۔
یہ سب کہنے کے بعد بھی حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہر امن منصوبے کے ساتھ ہوتا ہے، فی الحال یہ واحد مسودہ ہے، لہٰذا حمایت کا مستحق ہے، چاہے بلیئر کے ناقدین ہوں یا ٹرمپ کے مستقل مخالف۔ امید کی ایک کرن بہرحال موجود ہے۔ نتن یاہو کو دیے گئے ٹرمپ کے ’بلینک چیک‘ اور اسرائیلی وزیراعظم کی چاپلوسانہ تعریفوں کے باوجود ٹرمپ اپنے پرانے دوست ’بی بی‘ سے اکتا چکے ہیں۔
اسرائیل درحقیقت جنگ ’جیت‘ نہیں رہا اور یہ جنگ خلیج کے مالدار ممالک میں ٹرمپ کی سفارتی، معاشی اور ذاتی امنگوں کے آڑے آ رہی ہے۔ غالباً اسی لیے انہوں نے نتن یاہو سے کہا کہ قطر کے وزیراعظم کو فون کر کے اس میزائل حملے پر معافی مانگیں، جس میں حماس کے مذاکراتی وفد کو، جو قطر کی میزبانی میں وہاں تھا، نشانہ بنایا گیا۔ یہ داؤ شاید صرف ٹرمپ ہی چل سکتے تھے۔
اسرائیل کی داخلی سیاست اور نتن یاہو کی گرتی مقبولیت بھی اس عمل میں مدد دے سکتی ہے۔ اسرائیلی فوجی کمانڈرز بھی سکھ کا سانس لیں گے کہ اب انہیں وہ احکامات نہیں ماننے پڑیں گے، جن پر ان کا یقین نہیں۔ مصر اور اردن کا وزن بھی کم نہیں، اگر غزہ میں لڑائی جاری رہتی تو انہیں اپنے دیرینہ امن معاہدوں پر نظرثانی کرنا پڑتی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ٹرمپ ناقابلِ اعتماد مزاج کے حامل ہیں اور ان کی ولادی میر پوتن کے بارے میں خوفناک غلط فہمی نے مغرب کے امن و امان کو بڑا خطرہ لاحق کیا، مگر اس معاملے میں انہوں نے ٹونی بلیئر اور دیگر شرکا کے ساتھ، احترام اور وسیع حمایت حاصل کی ہے۔ اب چاہیں تو اپنی تمام خود ستائشی ٹرافیاں سنبھال لیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر کے ان کی سرزمین کے ایک حصے کو ساحلی ریزورٹ بنانے کا ٹرمپ کا ہولناک منصوبہ ترک ہو چکا ہے اور ایک نئے خاکے نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ صرف یہی بات اسے واقعی ’بڑا، خوبصورت دن‘ بنا دیتی ہے۔
© The Independent