پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے منگل کو کہا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں امریکہ ’ضامن‘ ہے اور امن معاہدے پر عمل درآمد بھی اسی کی ’ذمہ داری‘ ہے۔
اسلام آباد میں منگل کو وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو امریکہ سے وطن واپسی پر صحافیوں کو تمام سفارتی ملاقاتوں سے آگاہ کیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے پر بھی بات کی۔
کئی دنوں کی قیاس آرائیوں کے بعد وائٹ ہاؤس نے پیر کو غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی زمین کے مستقبل کا خاکہ پیش کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا تھا۔
پاکستان، انڈونیشیا، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات اور ترکی نے منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں جنگ کے خاتمے سے متعلق اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا۔
اسی حوالے سے دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’فلسطین کے معاملے پر ضامن امریکہ ہے کیونکہ اسرائیل سے امریکہ بات کرے گا۔ فلسطین امن معاہدے پر عمل درآمد کروانا بھی امریکہ کی ذمہ داری ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اسحاق ڈار سے سوال کیا کہ غزہ معاہدے کے اعلان کو 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے مگر اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے‘؟
اس پر نائب وزیراعظم نے کہا کہ ’اسرائیلی وزیراعظم کے بیان پر تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ ان کے بیان کی اہمیت نہیں ہے۔
’فلسطین کے معاملے پر پاکستان اسرائیل کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں ہے۔ امریکہ نے معاہدہ کروایا ہے وہی عمل درآمد بھی کروائیں گے۔‘
اسحاق ڈار نے غزہ معاہدے سے قبل ملاقاتوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’آٹھ ممالک نے فیصلہ کیا کہ ہم صدر ٹرمپ کے ساتھ یہ معاملہ اٹھائیں۔ ان آٹھ ممالک میں پاکستان سمیت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، مصر، ترکی، قطر اور انڈونیشیا شامل ہیں۔
’ہم آٹھ ملکوں نے کوشش کی کہ خون بہنے کو روکا جائے۔ انسانی امداد پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے سے متعلق اسرائیلی راستہ روکا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’صدر ٹرمپ نے کہا میری ٹیم کے ساتھ 48 گھنٹوں میں تجاویز مرتب کریں، جو ہم نے کیں۔ ان ملاقاتوں میں ساری مشاورت خفیہ رکھنے کے لیے ہارڈ کاپیز کو استعمال کیا گیا۔ ڈر یہ تھا کہ خراب کرنے والے اس کو کہیں خراب نہ کر دیں۔
’جب ہم لندن پہنچے تو پتہ چلا کہ امریکی انتظامیہ کو تجاویز چلی گئی ہیں۔ آج چونکہ یہ ہو چکا ہے، ہمیں ایک عبوری تصدیق بھی آ گئی۔ صدر ٹرمپ کی ٹیم نے ہمیں پہلے 20 نکاتی پلان دیا ہم نے اسی میں ترامیم کیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ کے مطابق ’فلسطین میں ایک ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لایا جائے گا جو بنیادی طور پر فلسطینیوں پر مشتمل ہو گا، اس کے ساتھ بین الاقوامی معاونت ہو گی۔ زیادہ امکان ہے کہ ٹونی بلیئر بین الاقوامی معاونت کی سربراہی کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فلسطین میں پیس کیپنگ فورس فلسطینیوں پر مشتمل ہو گی۔ انڈونیشیا نے وہاں غزہ میں پیس کیپنگ کے لیے 20 ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کی پیش کش کی ہے۔‘
غزہ امن معاہدے پر اسحاق ڈار نے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جس بیان کو فلسطینی اتھارٹی خوش آئند قرار دے رہی ہے پاکستان میں کچھ لوگ تنقید کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب اسحاق ڈار نے پاکستان سعودی دفاعی معاہدے کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ’سعودی دفاعی معاہدہ آنناً فانناً نہیں ہوا بلکہ دو سال سے دفاعی معاہدے پر کام ہو رہا تھا۔
’نیوکلئیر امبریلا ایک ڈیٹرنس ہے۔ انڈیا نے جیسے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور اس وقت اگر معاہدہ ہو چکا ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ انڈیا نے سعودی عرب پر بھی حملہ کر دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دیگر ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے میں دلچسبی لے رہے ہیں۔‘