پاکستان نے صدر ٹرمپ کے امن اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کو آگے بڑھانے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب ممالک کے اشتراک سے کیے گئے یہ عملی اقدامات قابلِ تحسین ہیں۔
سلامتی کونسل میں مشرقِ وسطیٰ اور قرارداد 2334 کے نفاذ پر پیر کو بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اسلام آباد اس مشاورتی عمل میں بھرپور طور پر شریک رہے گا اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی آئندہ راستہ مکمل طور پر فلسطینی عوام کی ملکیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔
سلامتی کونسل نے 2016 میں قرارداد 2334 میں اس بات کی توثیق کی کہ اسرائیل کی طرف سے مشرقی یروشلم سمیت 1967 سے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر بستیوں کے قیام کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور دو ریاستی، منصفانہ امن اور جامع حل کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی حملے بند کرنے کی غرض سے پیر کو 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے، جس کی وسیع پیمانے پر حمایت ہو رہی ہے۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل سے اپنے خطاب میں کہا کہ اگرچہ غزہ میں امن کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی نئے سفارتی امکانات بھی جنم لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مغربی کنارے پر ای۔1 آبادکاری کا منصوبہ منڈلا رہا ہے اور انسانی بحران بے قابو ہے تو اس موقع پر تاریخ سلامتی کونسل کے ردعمل کو یاد رکھے گی۔ ’آیا یہ منصوبہ دو ریاستی حل کو ختم کرنے دے گی یا امن کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھائے گی۔‘
اس موقعے پر پاکستان کے سفیر نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا ای۔1 آبادکاری منصوبہ براہِ راست دو ریاستی حل پر حملہ ہے۔
’اس منصوبے کے تحت مشرقی یروشلم کو فلسطین سے کاٹنے اور مغربی کنارے کی جغرافیائی وحدت کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ قرارداد 2334 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہ کرا سکے تو اس کی ساکھ شدید خطرے میں پڑ جائے گی۔
پاکستانی مندوب نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی سنگین صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ 66 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’غزہ نہ صرف مسلسل بمباری بلکہ جان بوجھ کر بھوک اور قحط کا شکار ہے، جبکہ انفراسٹرکچر ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں قریب ایک ملین فلسطینی بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں جن کے لیے کوئی پناہ باقی نہیں بچی۔‘
انہوں نے مثبت پیش رفت کی جانب اشارہ کیا، جن میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں منعقدہ دو ریاستی حل کانفرنس اور متعدد رکن ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے شامل ہیں۔
’یہ اصولی اقدامات ہیں جنہیں اب عملی اقدامات سے تقویت دینا ضروری ہے۔‘
پاکستان کی توقعات بیان کرتے ہوئے سفیر عاصم نے درج ذیل نکات پیش کیے:
- غزہ میں قتل و غارت کو روکنے کے لیے فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی۔
- ناکہ بندی کے خاتمے، بلاتعطل انسانی امداد کی فراہمی اور یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی۔
- جبری بے دخلی کا قطعی خاتمہ اور غزہ یا مغربی کنارے میں کسی بھی قسم کے الحاقی منصوبوں کو مسترد کرنا۔
- قرارداد 2334 کے مکمل نفاذ کے لیے عملی اور وقت مقررہ اقدامات تاکہ دو ریاستی حل کو قابل عمل بنایا جا سکے۔
- ایک معتبر اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کا فوری آغاز تاکہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہو، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔