پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے جمعے کو قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ غزہ میں امن منصوبے کے جو 20 نکات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کیے وہ ’من و عن‘ پاکستان کے نہیں ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے پیر (29 ستمبر) کو غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی زمین کے مستقبل کا خاکہ پیش کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا تھا، جس پر پاکستان میں بعض حلقوں بشمول قومی اسمبلی میں سوال اٹھائے گئے۔ انہی سوالات کا جواب دینے کے لیے اسحاق ڈار نے جمعے کو ایوان میں وضاحتی بیان دیا۔
اسحاق ڈار نے کہا: ’میں نے (گذشتہ ہفتے) پریس بریفنگ میں یہ واضح کیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے جو 20 پوائنٹس دیے، یہ من وعن ہمارے نہیں ہیں، اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے ٹرمپ کی ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کر دی، انہیں الہام تو نہیں ہونا تھا کہ جو ڈرافٹ بھیجا گیا، وہ من و عن وہی تھا۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے ہماری پالسیی وہی ہے جو قائداعظم کی تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے، نہ ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اقوام متحدہ کے 88 ویں جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم نے قوم کی بھرپور نمائندگی کی، جہاں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا، وہیں فلسطین کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا اور اسرائیل کا نام لے کر تنقید اور مذمت کی گئی۔
وزیر خارجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ امن منصوبے کے اعلان کے بعد آٹھ مسلم ممالک کے وزارئے خارجہ نے مشاورت کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ وہ غزہ کے مسئلے کے حل کے لیے امریکہ اور دیگر فریقین کے ساتھ مثبت اور تعمیری انداز میں مشغول رہنے کے لیے تیار ہیں۔
جن آٹھ ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ان میں اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، قطر اور مصر شامل ہیں۔
انہوں نے مشترکہ اعلامیے کا متن ایوان کے سامنے پڑھا جس میں کہا گیا کہ ’وہ (آٹھ مسلم ممالک) اپنے اس مشترکہ عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے ایک جامع معاہدے پر کام کریں گے، جو غزہ کو خاطر خواہ انسانی امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل کو یقینی بنائے گا۔
29 اور 30 ستمبر کی درمیانی شب جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’فلسطینیوں کی بے دخلی نہ ہو، قیدیوں کی رہائی ہو، ایک ایسا سکیورٹی نظام قائم ہو جو تمام فریقوں کی سلامتی کو یقینی بنائے، اسرائیل کا مکمل انخلا ہو، غزہ کی تعمیرِ نو ہو اور ایک منصفانہ امن کی راہ ہموار ہو جو دو ریاستی حل پر مبنی ہو، جس کے تحت غزہ مکمل طور پر مغربی کنارے کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست میں ضم ہو جو بین الاقوامی قانون کے مطابق قائم ہو۔ یہ خطے میں پائیدار امن و استحکام کے حصول کی کنجی ہے۔‘
نائب وزیراعظم نے اپنی تقریر میں غزہ کو ’عالمی ضمیر کا قبرستان‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے حق میں درجنوں قراردادیں منظور ہو چکی ہیں، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
غزہ کے مسئلے کو حل کرنے میں عالمی اداروں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ’یہ ایک نوبل مشن تھا کہ ہمارے ساتھ اگر کچھ ممالک مل کر امریکہ کے صدر ٹرمپ کو انگیج کریں کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ تلکیف دہ مسئلہ غزہ کا ہے۔‘
اس معاملے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ’یا تو ہماری اکیلے اتنی صلاحیت ہو کہ ہم (غزہ میں جنگ) بند کروا سکیں تو ہم قربانی دے سکتے ہیں، اگر نہیں تو پھر یہی راستہ تھا کہ جہاں سارے ادارے ناکام ہو گئے، اور کیا راستہ تھا؟ کیا ہم نے تماشا دیکھنا ہے، سیاست کرنی ہے یا کام کرنا ہے؟
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کوشش اقوام متحدہ کے اجلاسوں کا حصہ نہیں تھی، یہ فلسطین کے ساتھ ہمارے عزم کا معاملہ ہے۔
’یہ ذاتی معاملہ نہیں، یہ ہماری اسلامی ذمہ داری ہے۔‘