غزہ: ہم زندہ تو بچ گئے، مگر پہلے جیسے نہیں رہے

فائر بندی ہوئی تو دو سال میں پہلی بار ایسا لگا کہ شاید ہم آزادی سے سانس لے سکیں، سکون سے سو سکیں اور کھلے دل سے خواب دیکھ سکیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

غزہ کے شہر خان یونس میں نو اکتوبر 2025 کو جنگ بندی معاہدے کے بعد  فلسطینی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں (اے ایف پی)

جب میں یہ سطور تحریر کر رہی ہوں، تو یہ نام نہاد فائر بندی کا 13واں دن ہے۔ نو اکتوبر کو اس معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد سے اسرائیل نے اسے کئی بار توڑا ہے اور جب بھی چاہا، واپس اسی پر لوٹ آیا۔ یہ فائر بندی صرف کاغذوں تک محدود ہے۔

غزہ کی زمینی حقیقت مختلف ہے، جہاں اب بھی خوف ہم پر راج کر رہا ہے اور کچھ نہیں بدلا۔ یہاں سرحدیں بند ہیں، کھانے پینے کی اشیا کی مقدار محدود ہے اور ہر وہ چیز جس سے غزہ کے لوگوں کو ذرا سا سکون مل سکے، اسرائیل کی طرف سے روکی جا رہی ہے۔ جب تک یہ سب نہیں بدلتا، تب تک ہم حقیقی امن محسوس نہیں کر سکتے۔

میں ان چند لمحوں کو یاد کرتی ہوں جب فائر بندی ہوئی تھی اور لوگ خوشی سے ’جنگ ختم ہو گئی، جنگ ختم ہو گئی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

لیکن میں نے اس وقت بھی یقین نہیں کیا۔ ہم نے سیکھا ہے کہ امید پر جلدی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ پھر بھی دو سال میں پہلی بار ایسا لگا کہ شاید ہم آزادی سے سانس لے سکیں، سکون سے سو سکیں اور کھلے دل سے خواب دیکھ سکیں۔

اعلان کے بعد ہم خاموش بیٹھے تھے، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوش ہوں یا روئیں۔ جو ہم نے کھویا ہے، وہ ہمارے دلوں سے بڑا ہے۔ ہم تقریباً بھول چکے تھے کہ ایک عام دن کیسا ہوتا ہے۔ یہ دو سال کافی تھے ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے کہ شاید ہم خوشی کے قابل ہی نہیں رہے۔

بعد میں، میں غزہ کی گلیوں میں نکلی اور اپنی زندگی کی سب سے خوبصورت تصویریں بنائیں۔ آسمان سے بم نہیں گر رہے تھے، کوئی نیا شہید نہیں تھا، ہمارے بھرے ہوئے ہسپتالوں میں کوئی زخمی نہیں پہنچ رہا تھا۔ ہم سب یہی کہہ رہے تھے، ’ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ عید کا پہلا دن ہو۔‘

مگر حقیقت پسندی ضروری ہے۔ اس اختتام کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا دکھ بھول جائیں گے۔ ہمارے شہر سے باہر کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ ہم نے کیا جھیلا ہے۔ اس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ ہماری اپنی زندگی، ہمارا احساسِ تحفظ اور ہمارا مستقبل تھا۔ میری زندگی اس جنگ میں ناقابل بیان دکھ سے گزر چکی ہے۔

میں قحط کے دو ادوار سے گزری، ایک جنوری سے مارچ 2024 تک شمالی غزہ میں اور دوسری مارچ سے جولائی 2025 تک۔ ہم نے دنیا سے کھانے کی بھیک مانگی۔ آج بھی وہ راتیں یاد ہیں جب بھوک کے درد سے رو رو کر سو جاتی تھی۔ یہ وہ خالی پن تھا جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔ زندگی میں پہلی بار میں واقعی بھوکی تھی۔

مگر اسرائیلی ٹینکوں کا مکمل محاصرہ اس سے بھی بدتر تھا۔ جنگ شروع ہونے کے صرف دو ماہ بعد ہم اپنے گھر میں محصور ہو گئے، وہی جگہ جو آج بھی میرے دل میں بسی ہے، جہاں لوٹنے کی خواہش ہے۔ جب فضائی حملے ہمارے محلے پر برس رہے تھے ہمارے 30 رشتہ دار اس چھوٹے سے مکان میں دبکے بیٹھے تھے۔ ہم بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم نے سوچا یہی ہمارا انجام ہے۔

بچوں سے لے کر بوڑھوں تک سب خوف سے رو رہے تھے۔ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہر چیز ختم ہو گئی تھی، نہ کھانا، نہ پانی، نہ بجلی، نہ انٹرنیٹ جس سے کسی کو اطلاع دے سکیں۔ تین دن تک بند رہنے کے بعد ہم سوتے اور جاگتے، بس یہی سوچتے کہ ہم ابھی تک زندہ کیسے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنگ نے مجھے شروع کے مہینوں ہی میں بدل دیا۔ میں 19 سال کی تھی جب یہ شروع ہوئی اور جب یہ ختم ہوئی تو میں 21 برس کی ہوں، ہمیشہ کے لیے بدل چکی تھی۔ پرانی سارہ اب نہیں رہی۔ مجھے یاد ہے میرے والد نے کہا تھا: ’اگر میرے ساتھ کچھ ہو گیا تو اپنی ماں اور بہن بھائیوں کا خیال رکھنا۔‘ بعض اوقات ہم خود بھی اپنے اندر کے دکھ کو سمجھ نہیں پاتے۔

غزہ کے ہر شخص کے دل میں ایک ایسی جنگ برپا ہے، جس میں بم نہیں پھٹتے مگر جو ہمیشہ لڑی جائے گی — اکیلے، خاموشی سے۔

اس جنگ کا نفسیاتی اثر اتنا گہرا ہے کہ اس نے ہمارے خوابوں کا مفہوم ہی بدل دیا ہے۔ اب ہم صرف زندہ رہنے کے بارے میں سوچتے ہیں، کھانے، چھت اور حفاظت کے بارے میں۔ جنگ نے ہم سے خوشی کا احساس ہی چھین لیا ہے۔

اب بھی، فائر بندی کے بعد، سب کچھ عجیب لگتا ہے۔ جیسے امن ہم پر جچتا نہیں۔ ہمیں فطرت کی آوازیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم خاموشی سے چونک جاتے ہیں۔ ہم اسرائیلی ڈرونز کی بھنبھناہٹ کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ ان کے بغیر فضا اجنبی لگتی ہے۔

گذشتہ رات، نیند نہ آنے پر، میں اپنے خاندان کے پناہ گزین خیمے سے باہر نکلی اور چپ چاپ بیٹھ گئی۔ میرا جسم اب بھی ہر آواز میں خطرہ تلاش کرتا ہے۔ جب احساس ہوا کہ جو آواز مجھے چونکا رہی تھی، وہ دراصل بحیرۂ روم کی لہروں کی تھی جو ساحل سے ٹکرا رہی تھیں، تو برسوں بعد دل میں ایک خوشی سی جاگی۔

فطرت کی آواز سن کر خوشی ہوئی، مگر اداسی بھی کیونکہ میں بھول چکی تھی کہ یہ احساس کیسا ہوتا ہے۔ میں نے اس معمول کی کیفیت کو بہت یاد کیا تھا۔

میں وہ سارہ نہیں رہی جو اس جنگ میں داخل ہوئی تھی۔ مستقبل اب بھی خاموشی میں معلق ہے مگر میں زندہ ہوں۔ شاید فی الحال یہی کافی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر