فلسطین ارض مقدس ہے، انبیا کا مسکن رہی ہے۔ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں تینوں کی یہاں اہم مقدس عمارتیں موجود ہیں۔ ان تینوں مذاہب کےابتدائی نقوش اس خطے میں موجود ہیں۔ جس خطے کو مذہبی زیارت کا مرکز ہونا چاہیے تھا اس کو اسرائیل نے جنگ کی لپیٹ میں لے کر خون سے تر کر دیا ہے۔
اس جگہ کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے۔ ہر قوم اس پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی تھی۔ پر جو کچھ حالیہ سالوں میں ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسرائیل نے وہ مظالم ڈھائے کہ تاریخ کے اوراق لہو سے بھیگ گیے۔ یہ جنگ سے زیادہ نسل کشی تھی۔ اس جنگ میں فلسطینوں کی نسل کشی کے ساتھ وہاں تعمیرات کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ غم کی وہ داستانیں رقم ہوئی کہ بیان سے باہر ہیں۔ تاہم ایک چیز نمایاں رہی وہ ہے اس خطے کے باسیوں کا اللہ پر توکل ان کا جذبہ ایمانی اتنے مصائب مشکلات میں بھی کھڑے رہے۔
کچھ نے اپنے خاندان کھو دیے، کچھ نے اپنا گھر بار کاروبار کو مٹی میں ملتے دیکھا۔ کچھ اس جنگ میں معذور ہو گئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ کوئی فلسطینی ملبے کے ڈھیر میں اللہ کے سامنے سربسجود رہا تو کسی نے تباہ شدہ عمارت میں بیٹھ کر کھانا بنا کر سب میں تقسیم کیا۔ کوئی کھنڈر جیسے علاقوں میں جانوروں کی دیکھ بھال کرتا رہا تو کچھ زندہ رہ جانے والے بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیل کر زندگی کی رمق دکھانے کی کوشش کرتا رہا۔
وہ امید زندہ رہی جب سب کچھ خاک میں مل گیا تھا تب بھی وہاں آزادی کی تمنا دلوں میں زندہ تھی امن کی آشا قائم تھی۔ میں سوچتی تھی کہ یہ لوگ کیسے ہیں کس مٹی کے بنے ہیں۔ ہر وقت باردو کی بو، آگ و خون دھماکوں میں رہنا آسان نہیں۔ یہ کیسے ان حالات میں گزربسر کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے ان دو سالوں میں غزہ کو دنیا کی ایک بڑے جیل میں تبدیل کر دیا، جہاں آگ و خون کا وہ بھیانک کھیل کھیلا گیا کہ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پر اہلیان غزہ ڈٹے رہے۔
سکولز، گھروں، دفاتر، میڈیا، مساجد، ہسپتالوں، گرجا گھروں ہر چیز کو نشانہ بنایا گیا۔ نسل کشی ایسے کی گئی کہ خاندان کے خاندان ختم ہو گئے۔ دنیا میں درد دل رکھنے والے کراہ اٹھے۔ ہر طرف امن کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ تاہم اسرائیل کی دہشت گردی رک نہیں سکی۔ اس جنگ میں متاثرہ علاقوں میں 92 فیصد گھر تباہ ہو گئے۔ ان عمارتوں گھروں اور املاک کے تباہ ہونے سے غزہ میں اس وقت 55 ملین میڑک ٹن ملبہ پڑا ہوا ہے۔ ان کے نیچے کتنے لوگ زندہ دفن ہو گئے اس کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں 19 لاکھ فلسطینی بےگھر اور بے دخل ہوئے۔ 99 فیصد آبادی اس وقت غذائی قلت کا شکار ہے۔ وہ کھانے پینے کی اشیا کی شدید کمی ہے۔ 790 ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے پر یہاں حملے ہوئے۔ نامساعد حالات کے باوجود طبی عملے نے مریضوں کا علاج جاری رکھا۔ 270 صحافی ان حملوں میں قتل کر دیے گئے، پھر بھی صحافیوں نے اپنے فرائض جاری رکھے اور دنیا بھر کو حالات سے آگاہی دی۔
اس کے ساتھ انسانی حقوق کے کارکنان بھی ان حملوں کی زد میں آئے جن میں اقوام متحدہ کا عملہ، ڈاکٹرز دو آوٹ باڈرز اور ریڈ کراس کے کارکنان کو بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ 544 امدادی کارکنان نے اس جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ فلسطین میں 67 ہزار فسطینی موت کے منہ میں چلے گئے۔
اس کے ساتھ ایک لاکھ 65 ہزار سے فلسطینی زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر لوگ معذور ہوئے ہیں۔ فضائی حملوں کے نتیجے میں نہتے شہریوں میں سے کتنوں کی بینائی چلی گئ، چہرے کے خدوخال بگڑ گئے، اعضا متاثر ہوئے اور ریڑھ کی ہڈی کی چوٹیں سب سے زیادہ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنگ زدہ افراد کو بحالی صحت کی ضرورت ہے۔ ان میں جسمانی معذوری، غیر متعدی بیماریاں، سرجری اور جلنے کے علاج کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ جنگ نے غزہ کے طبی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ اسرائیل نے ہسپتالوں پر بھی بلااشتعال حملے کیے۔
اس طویل جنگ نے وہاں کے لوگوں کی نفسیاتی صحت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ اس وقت بھی 15 ہزار سے زائد لوگ علاج کے لیے انخلا کے منتظر ہیں۔ پانچ ہزار لوگ ایسے بھی ہیں جو اب معذوری کا شکار ہیں جن کی زندگی بچانے کے لیے ان کے جسمانی اعضا کاٹ دیے گئے۔
اب یہ علاقہ بحالی نو کا منتظر ہے، یہاں کے عوام امداد کے انتظار میں ہیں۔ امن معاہدے پر تو دستخط ہو گئے لیکن امن کے قیام کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا یہ ایک مشکل سوال ہے۔
سب سے پہلے تو وہاں خوراک، صاف پانی اور ادویات پہنچائی جائیں۔ یو این کے تخمینے کے مطابق ان ترقیاتی کاموں کے لیے 70 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اس مدد سے علاقے کو صاف کیا جائے گا، طبی سامان خریدا جائے گا، ملبہ ہٹایا جائے گا اور پینے کے لیے صاف پانی مہیا کیا جائے گا۔
امدادی ادارے اور اقوام متحدہ اس امداد سے روزگار کے مواقع بھی مہیا کرے گی اور بچوں کی تعلیم پر بھی کام کیا جائے گا۔ اب یہ عالمی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد سے جلد سے مدد متاثرین تک پہنچائیں۔ اسرائیل سرحدی راستے کھولے اور امداد کی ترسیل میں رکاوٹ نہ بنے۔
پانی اور خوراک سب سے پہلا حق ہے اس کے بعد ادویات کا وہاں جانا اور طبی سامان غزہ کے باسیوں کی اشد ضرورت ہے۔ اب سردی کا موسم شروع ہو رہا ہے، گرم لباس، لحاف اور خیمے بھی ان کی اشد ضرورت ہیں۔
جو ہسپتال اور سکول بند ہو گئے ان کی بحالی بہت ضروری ہے۔ اسرائیل کے فلسطین پر مظالم تاریخ کے سیاہ ترین باب میں شامل ہیں۔ اب وہاں بمباری پر مکمل پابندی ہونا چاہیے۔ غزہ بالکل کھنڈر بن چکا ہے اس کو امن وامان کی اشد ضرورت ہے۔
اسلامی دنیا کو کچھ سوچنا چاہیے اللہ نے انہیں وسائل سے نوازا ہے ان کو اپنے جنگ سے بدحال غزہ کے بہن بھائیوں کی مدد کے لیے سامنے آنا چاہیے۔