اسرائیل قید سے رہائی پر فلسطینیوں کا جشن: ’ہم نے صرف آزادی کا خواب دیکھا‘

فائر بندی معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں جشن کے مناظر دیکھنے میں آئے۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کی جانب سے تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں جشن کے مناظر دیکھنے میں آئے۔

فلسطینی علاقوں میں لوگوں نے سڑکوں پر نعرے لگائے، ہوائی فائرنگ کی اور ریڈ کراس کی بسوں سے اترتے قیدیوں کا پھولوں اور کفیہ (روایتی فلسطینی رومال) سے استقبال کیا گیا۔

رام للہ کے قریبی قصبے بيتونيا میں لوگوں نے قیدیوں کو کندھوں پر اٹھایا جب کہ خان یونس میں ہزاروں افراد ہسپتالوں کے باہر جمع ہو گئے جہاں رہائی پانے والے قیدیوں کے ابتدائی طبی معائنے کیے گئے۔

51 سالہ کمال ابو شناب، جو 18 سال سے زائد عرصہ اسرائیلی جیل میں قید رہے، نے رہائی کے بعد کہا کہ ان کے لیے یہ دن ’زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور آزادی‘ کا لمحہ ہے۔

انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ اسرائیلی قید میں ناقابل برداشت اذیت تھی، بھوک، ظلم، تشدد اور بدسلوکی، جو کسی انسان کے تصور سے بھی باہر ہیں۔‘

ان کا وزن قید کے دوران 59 کلوگرام کم ہو گیا۔ ان کی بھتیجی فرح ابو شناب نے کہا: ’ہم انہیں پہچان نہیں پائے۔ ہمارے چچا پہلے جیسے نہیں لگتے۔‘

اسرائیلی وزارت انصاف کے مطابق، رہا کیے گئے افراد میں تقریباً 1700  فلسطینی وہ ہیں جنہیں گذشتہ دو سالہ جنگ کے دوران غزہ سے گرفتار کر کے بغیر الزام کے حراست میں رکھا گیا تھا۔

مزید 250 فلسطینئ قیدیوں کو مختلف مقدمات میں سزا ہو چکی تھی، جن میں بعض وہ بھی ہیں جنہیں اسرائیلی شہریوں پر حملوں میں ملوث قرار دیا گیا۔

ان میں سے 154  افراد کو اسرائیل نے مصر بھیج دیا ہے، جہاں سے انہیں تیسرے ممالک منتقل کیا جائے گا۔ باقی قیدی مشرقی بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ واپس پہنچ گئے۔

’ہم نے صرف آزادی کا خواب دیکھا‘

خان یونس کے ایک نوجوان رہائی پانے والے قیدی نے آنسوؤں کے ساتھ بتایا: ’ہم نے جیل میں صرف ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک دن آزادی ملے گی اور ہم اپنی ماؤں کے چہرے دوبارہ دیکھیں گے۔‘

ایک اور قیدی نے کہا: ’ہمیں ہر روز بتایا جاتا تھا کہ ہم دہشت گرد ہیں، لیکن ہم صرف اپنی زمین واپس چاہتے ہیں۔‘

یہ رہائی دونوں جانب گہرے جذباتی اثرات رکھتی ہے۔
اسرائیل کے لیے یہ لمحہ کڑوا ہے کیونکہ کئی رہا کیے گئے افراد وہ ہیں جن پر مہلک حملوں کے الزامات تھے جبکہ فلسطینیوں کے لیے قیدیوں کی رہائی ایک قومی جذبے اور مزاحمت کی علامت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلسطینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں اب بھی 1300 کے قریب فلسطینی قید ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھا گیا ہے۔

اسرائیلی وارننگ کے باوجود جشن

غرب اردن میں اسرائیلی حکام کی وارننگ کے باوجود لوگ بيتونيا میں اوفر جیل کے قریب جمع ہوئے۔ اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں نے ہجوم پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں تاہم لوگ منتشر ہونے کے بعد دوبارہ جمع ہو گئے اور نعرے لگاتے رہے۔

نمایاں قیدی

اسرائیل اور حماس کی جاری کردہ فہرستوں کے مطابق، رہا شدہ قیدیوں میں دو خواتین، چھ نوعمر لڑکے (18 سال سے کم عمر) اور 60 سال سے زائد عمر کے تقریباً 30 مرد شامل ہیں۔
250  سزا یافتہ قیدیوں میں سے 159  کا تعلق فتح، 63  کا حماس سے بتایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا